پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان بلا واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ میں ہوئی۔ اس دوران پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے۔
وکلا کی ہڑتال کے باعث فریقین کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی ہمیں کل تک کا وقت دیا جائے جس پر عدالت نے کل صبح 9 بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ صبح آپ کو سنیں گے۔
دوران سماعت وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائے تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن صرف ’ریکارڈ کیپر‘ ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان راستے میں ہیں اور استدعا کی کہ کیس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کیا جائے۔ جسٹس اعجاز انور نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو جواب جمع کرانے کی اجازت دی اور سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
’ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں‘
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان اور وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کے بروقت نہ پہنچنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ بیرسٹر گوہر کے تاخیر سے آنے پر قاضی انور ایڈووکیٹ نے عدالت سے معذرت کی تو جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ انکو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں، مزید انتظار نہیں ہوگا۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں سوا ایک بجے تک وقفہ کیا اور کہا کہ اس کے لیے مزید کوئی وقت نہیں دیا جائے گا ۔ وقفے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور تاخیر سے پہنچنے پر عدالت سے معذرت کی۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت مقررہ وقت پر دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور تاخیر سے پہنچنے پر عدالت سے معذرت کی۔
’ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں کے نام شامل نہیں‘
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات دینے والوں نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات جون 2022 میں کرائے جس کا الیکشن کمیشن کو ریکارڈ پیش کیا گیا، بعد میں الیکشن کمیشن نے اس پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے اور آخر میں الیکشن کمیشن نے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبرز نہیں ہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں کے نام شامل نہیں۔
’اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو۔۔۔‘
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اعتراضات کرنے والوں نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پی ٹی آئی آئین کے مطابق نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر بولے کہ ہم سے بلے کا نشان لے لیا جاتا ہے تو ہم غیر فعال ہو جائیں گے، پی ٹی آئی مخصوص 227 نشستوں میں اپنے حصے سے محروم ہوجائے گی۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں آتا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو کروڑوں لوگ پارٹی کے حقوق سے محروم رہ جائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ کسی بھی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔ جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ جب 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے ہیں تو کیا ایسے میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوسکتے ہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کسی سے کاغذات نامزدگی طلب ہی نہیں کیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ اس کیس کو پرسوں کے لیے رکھ لیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ انٹیرم ریلیف کو دوبارہ بحال کردیں۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ نہیں وہ ہم نے دیکھ لیا، آپکا انٹیرم ریلیف حتمی استدعا ہی ہے۔ بیرسٹر ظفر نے کہا نہیں پھر بہت دیر ہوجائے گی، 13 جنوری کو نشانات الاٹ ہوں گے، ہم پھر الیکشن کمیشن کو فہرست بھی نہیں پہنچا سکیں گے۔
’الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے‘
عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو دلائل جاری رکھنے کا کہا تو بیرسٹر علی ظفر نے مکمل دلائل شروع کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں پڑھ کر سنایا اور پھر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، بیرسٹر گوہر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی چیئرمین منتخب ہوئے اور انہوں نے ریکارڈ پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو دیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائے تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن صرف ’ریکارڈ کیپر‘ ہے۔
’آپ کو بلا ہی کیوں چاہیے؟’
جسٹس ارشد علی نے بیرسٹر علی ظفر سے اسفتسار کیا کہ آپ انتخابی نشان بلا کیوں مانگ رہے ہیں، آپ کو بلا ہی کیوں چاہیے، جس پر وکیل علی ظفر نے عدالت دلائل دیے کہ سیاسی جماعت کے پاس اختیار ہے کہ وہی نشان مانگے جس پر پہلے کبھی الیکشن لڑا ہو، انتخابی طریقہ کار میں سب سے اہم انتخابی نشان ہی ہے، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں۔
عدالت نے وکیل پی ٹی آئی سے کہا کہ آپ ہمیں فیصلوں کی کاپی دیدیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا انتخابی نشان دراصل بنیادی حق ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ انتخابی نشان واپس لینا پارٹی کو تحلیل کرنے کے مترادف ہے، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی وغیر آئینی ہے، کسی قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے۔ جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے، ’نہیں ہمارے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے۔‘
’کیس الیکشن کمیشن کو ریمانڈ ہوگا‘
بیرسٹر علی ظفر بولے، الیکشن کمیشن کوئی کورٹ آف لا نہیں، ایسے تنازع کے حل کے لیے ٹرائل ضروری ہے، ایسے تنازعات میں سول کورٹ ہی ٹرائل کرسکتی ہے، الیکشن کمیشن نے سمری میں فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ایسے میں تو پھر کیس الیکشن کمیشن کو ریمانڈ ہوگا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا، ’بالکل ریمانڈ ہوگا لیکن اگر الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہو۔‘
کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے اپنے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا کیس لفظ بہ لفظ ایک ہے، لاہور ہائیکورٹ نے 3 وجوہات کی بنیاد پر کیس کو خارج کیا، پہلی وجہ یہ کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دوسری یہ کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور تیسری وجہ یہ کہ کیس میں قانون کو براہ راست چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔
وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ ایک ریلیف کے لیے 2 عدالتوں سے رجوع نہیں کیا جا سکتا، الزام لگایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے سمری فیصلہ کیا، پی ٹی آئی کو کئی مواقع دیے گئے کہ عملدرآمد کیا جائے، اس کے بعد 20 دن پھر دیے گئے۔
’پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات شفاف نہیں کرائے‘
وکیل الیکشن کمیشن سکندر مہمند نے کہاکہ پی ٹی آئی نے مختلف دستاویزات پر یوٹرن بھی لیے، انہوں نے آئین میں ترمیم کی لیکن جب الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو واپس لے لی۔
سکندر مہمند نے کہاکہ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات شفاف نہیں کرائے، 24 صحفات پر مشتمل درخواست میں صرف ایک پوائنٹ ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کمیشن کے اختیار پر بات کی حالانکہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔
سکندر مہمند نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ صاف وشفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی یہ بات غلط ہے کہ فیصلے سے پارٹی کو تحلیل کیا گیا۔ انٹرا پارٹی انتخابات صرف پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہونے چاہییں بلکہ الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔