انسانی زندگی میں خوراک کی اہمیت سے بھلا کون ناواقف ہوگا؟ یعنی زندہ رہنے کے لیے جتنی اہمیت سانس لینے کی ہے اتنی ہی اہمیت خوراک کی بھی ہے۔
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے خوراک کے معاملے میں اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی کی ضرورت نہیں تھی مگر تیزی سے رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی زراعت کو بُری طرح متاثر کررہی ہیں۔
بڑھتی ہوئی گرمی، پانی کی کمی، بے وقت کی بارشیں اور سیلاب اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ حالات کسانوں کے لیے اناج اگانے اور بھوک کے شکار لوگوں تک خوراک پہنچانے کو مشکل بنا رہے ہیں۔ یہ بدلتے ہوئے موسم صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں غذائی بحران پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جدید سائنسی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ زمین پر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں اور شدید موسمی واقعات زیادہ تواتر کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتے جائیں گے۔
جرمن واچ نامی بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے کی 2020ء میں سامنے آنے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1999ء سے 2018ء کے درمیان موسموں کی شدت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کو 3 ارب 80 کروڑ ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ اس عرصے میں 9 ہزار 898 پاکستانی گرمی کی لہر اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان تبدیلیوں کا پاکستانی زراعت پر شدید منفی اثر مرتب ہورہا ہے۔
وی نیوز نے پاکستان میں غذائی بحران کے خدشات کو جاننے کے لیے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے سوشل سائنسز ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر غلام صادق آفریدی سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں زراعت کے پیشے کو بہت تیزی سے متاثر کر رہی ہیں جس سے پاکستان میں فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے جس کے سبب بڑا غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘موسمیاتی تبدیلی ہماری ذراعت کو بہت بُری طرح سے متاثر کررہی ہے اور اس کی مثال حال ہی میں آنے والا سیلاب ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے 70 سے 80 لاکھ ٹن گنّا ضائع ہوگیا۔ یہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ٹن چاول کی فصل بھی خراب ہوگئی اور تقریباً 10 لاکھ کپاس کی گانٹھیں تباہ ہوگئیں’۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے مئی 2021ء میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گرمی کی شدت اور ہوا میں موجود نمی کے تناسب میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں کپاس سمیت کئی فصلیں بُری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
کسان چاول کے بجائے مکئی کی کاشت کر رہے ہیں
ڈاکٹر غلام صادق آفریدی نے بتایا کہ ‘موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی کمی کا سامنا بھی ہورہا ہے جس کے سبب اب کسان چاول کی فصل کے بجائے مکئی کاشت کرنے لگ گئے ہیں۔ بلوچستان میں 83 لاکھ ایکڑ رقبہ موجود ہے مگر پانی کی کمی کی وجہ سے وہ قابلِ کاشت نہیں ہےـ پچھلے سال توقع تھی کہ گندم کی پیداوار 3 کروڑ ٹن تک ہوگی مگر مارچ کے آخر میں شدید گرمی کی لہر سے گندم کا دانا سکڑ گیا جس کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی اور ہم 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن کے قریب پیداوار حاصل کرسکے’۔
یاد رہے کہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسیز میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے مگر اس کم ترین حصے کے باوجود پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
ڈاکٹر صادق کہتے ہیں کہ ‘اگر ہمارے ملک کا ایک ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بھی بڑھ گیا تو تقریباً تمام فصلوں کی پیداوار میں 5 سے 15 فیصد تک کمی واقع ہوجائے گی اور بدقسمتی سے پاکستان اس جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘کچھ خاص فصلوں کی پیداوار زیادہ متاثر ہورہی ہیں جیسے آم اور سیب۔ آگر سیب کی بات کی جائے تو سیب کی کاشت کو لے کر گلگت اور بلوچستان سے کافی شکایات موصول ہورہی ہیں کہ سیب کی پیداوار معیاری نہیں رہی کیونکہ گرمی وقت سے پہلے شروع ہوجاتی ہے جس کے باعث سیب کا جو مخصوص رنگ ہے وہ خراب ہوجاتا ہے۔ کاشت سے پہلے ہی گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے اور سیب کو رنگ اختیار کرنے کا جو وقت درکار ہوتا ہے وہ مل نہیں پاتا’۔
انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘اسی طرح مارچ میں آم کے پودوں پر پھول آجاتے ہیں اور اسی دوران جب گرمی کی لہر یک دم آتی ہے تو سارے پھول گر جاتے ہیں، یعنی جن پھولوں پر پھل لگنے تھے وہ پہلے ہی گرجاتے ہیں۔ فروری کے وسط سے مارچ کے وسط تک اگر ان پر چھوٹے چھوٹے پھل بھی آجائیں تو وہ گرمی کی لہر کو برداشت کرسکتے ہیں مگر اچانک گرمی کی لہر پھولوں کے لیے ناقابلِ برادشت ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی آتی ہے’۔
واضح رہے کہ 2021ء میں آم کی پیداوار 22 لاکھ ٹن تھی مگر 2022ء میں آم کی پیداوار کم ہوکر 18 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی۔ اس کمی کا معاشی نقصان تو ہوا لیکن ماہریں نے خدشات کا اظہار کردیا ہے کہ مستقبل میں آم کو لے کر تحفظات مزید سنگین ہوچکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکا کی مندوب، لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اگست میں کہا تھا کہ موسمیاتی بحران قدرتی آفات، سیلاب، طوفان اور گرمی کی لہروں پر مشتمل ہے اور یہ براہِ راست غذائی سلامتی کے بحران کا سبب بنتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کو کھانا کھلانا بہت مشکل ہوتا جائے گا۔
ڈاکٹر صادق کہتے ہیں کہ پانی کی کمی بڑھتی جا رہی ہے اگر صورتحال اسی تناسب سے جاری رہی تو مستقبل میں ہم کاشت نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کاشتکاری سے متعلق تکنیک موجود ہیں مگر وہ چونکہ بہت مہنگی ہیں اس لیے ہمارے کسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ حکومتی سطح پر بروقت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ان آفات سے بچا جاسکے۔
یاد رہے کہ پاکستان 2021ء میں بھوک کے عالمی انڈیکس پر موجود 116 ممالک میں سے 92ویں نمبر پر تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین پر روسی حملے کے سبب سپلائی چین کے متاثر ہونے سے آنے والے برسوں میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اگر اس کے باوجود غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
کیا پاکستان پھل اور سبزیاں کاشت کرنے میں ناکام ہوجائے گا؟
یہ بہت بڑا خدشہ ہے کہ اگر آنے والے وقت میں یہی حالات رہے تو ہم بہت سے علاقوں میں بہت سے پھل اور سبزیاں کاشت کرنے میں ناکام رہیں گے۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فصلیں کپاس، گندم اور چاول ہیں۔ چاول کی کاشت کے لیے پانی زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے اور ہمارا ملک پانی کی قلت کا شکار ہورہا ہے۔
ڈاکٹر صادق نے بتایا کہ ‘کپاس کی بات کی جائے تو کپاس کو لے کر بہت زیادہ خدشات اس لیے ہیں کیونکہ موسم کے تبدیل ہونے کی وجہ سے کچھ کیڑے فصل پر بہت گرمی یا سردی میں حملہ نہیں کرتے۔ مگر اچانک موسم کی تبدیلی کے باعث بارش جلدی ہوجائے تو وہ کیڑے مکوڑے فصل پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کپاس کی فصل خاصی متاثر ہو رہی ہے’۔
یونیسکیپ (UNESCAP) کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا 9 فیصد کھوسکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بے وقت بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہوگا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
کیا اسمارٹ ایگریکلچر غزائی بحران کو روک سکتا ہے؟
ڈاکٹر صادق آفریدی نے ایک سوال پر بتایا کہ ہمارے محققین کی وجہ سے ہم اسمارٹ ایگریکلچر کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں ہم ایسے بیجوں کی اقسام تیار کر رہے ہیں جو گرمی کے خلاف مزاحمت کرسکیں یا پانی کی کمی کے باوجود بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ممکن ہوسکے یا اچانک گرمی کی لہر آ بھی جائے تو اس کو برداشت کیا جاسکے۔ ان بیجوں کا استعمال ہم دالوں، چاول اور گندم کی پیدار میں کررہے ہیں تاکہ فصل کو محفوظ رکھا جاسکے اور فصل جلدی پک کر تیار ہوجائے۔ اگر کوئی فصل 130 دن میں پک کر تیار ہورہی ہے تو ہماری کوشش ہے کہ وہ 100 دن میں تیار ہوجائے اور ہم خوراک کی دستیابی کو یقینی بناسکیں۔
پھلوں اور سبزیوں کے متاثر ہونے سے متعلق پاکستان میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی
نیشنل ایگریکلچر ریسچ سینٹر (این اے آر سی) کے ڈائریکٹر کلایمیٹ چینج ڈاکٹر بشیر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے اس حوالے سے اب تک کوئی تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے یا ہورہے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘لیکن مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں منفی اثر پڑسکتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ پیداوار میں تو ابھی سے کمی آچکی ہے جیسے سیب کو پکنے کے لیے وقت کم مل رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے رس میں کمی دیکھی گئی ہے اور صرف سیب کا رس ہی نہیں بلکہ سیب کی غذائیت اور اس کا ذائقہ بھی متاثر ہوا ہے۔
ڈاکٹر بشیر نے ایک سوال پر کہا کہ شدید گرمی کی لہر اور موسمیاتی تبدیلی زرعی زمین کی مٹی کو متاثر رہی ہیں جس سے مٹی کا کٹاؤ، نامیاتی کاربن، غذائی اجزا اور تیزابیت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان نقصانات میں مٹی کے نامیاتی مادے کا نقصان، نمی کی مقدار میں کمی، معدنیات کی شرح میں اضافہ، مٹی کی ساخت کا نقصان، مٹی کی تنفس کی شرح میں اضافہ اور غذائی اجزا کی دستیابی میں کمی، مٹی کو نمکین بنانا وغیرہ شامل ہے اور اس تمام تر خرابی کی وجہ سے مٹی کی فرٹیلیٹی متاثرہو رہی ہے۔
نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) کے فوڈ سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر عامر ممتاز سے بھی وی نیوز نے رابطہ کیا اور انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے جہاں پھل اور سبزیوں پر منفی اثرات دیکھنے میں آئے وہیں کچھ مثبت اثرات بھی دیکھے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک کی تمام مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پھل اور سبزیوں کے فنکشنل پراپرٹیز میں مثبت اثر بھی دیکھنے میں آیا ہے جیسے کہ اینٹی آکسیڈینٹ وغیرہ لیکن منرل اور پروٹین میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 10 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر عامر کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کیڑے مکوڑوں کے حملے کرنے کا وقت بدل گیا ہے جس کی وجہ سے انسیکٹیسائیڈ یا پیسٹیسائیڈ کا استعمال بڑھ گیا ہے اور ان کا استعمال ہماری پیداوار کو بچانے کے لیے انتہائی اہم اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس کے بنا ہماری فصلیں خراب ہوجائیں گی مگر پیسٹیسائیڈ کیمیکل کی کوالٹی میں اگر کوئی آلودگی ہے تو وہ انسانی صحت پر کافی اثرانداز ہوسکتی ہے اور انسانی اعضا کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے جیسے کہ گردے، دماغ وغیرہ کے نظام کو متاثر کرسکتے ہیں۔