سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنایا گیا پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھا تاہم انہیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 431 کا فائدہ دیتے ہوئے کہا کہ بعد از مرگ اب فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو پائے گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ خصوصی عدالت نے سنگین غداری الزامات کے تحت جنرل مشرف کو اکثریتی فیصلے کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور خصوصی عدالت کے جج، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ جنرل مشرف کی وفات کی صورت میں ان کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ان کو سیکشن 431 کا فائدہ دیتے ہوئے سزا پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ نے 13 جنوری 2020 لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
ججز کے ریمارکس
آج کی سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ آئین میں ترمیم کے بعد کیا 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی؟ اگر 12 اکتوبر کے اقدام کے خلاف کارروائی کی جاتی تو 3 نومبر نہ ہوتا۔
جنوری 2020 کو اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں ایک بینچ نے مرحوم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ بینچ میں جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس محمد مسعود جہانگیر شامل تھے۔
اس سے قبل 17 دسمبر 2019 کو غداری مقدمے کے ٹرائل کے لیے قائم خصوصی عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جنرل پرویز مشرف کو 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے کے الزامات کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
علاوہ ازیں 18 نومبر 2013 کو سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس چلانے کے لیے مسلم لیگ نواز کی جانب سے دائر درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت بنائے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔
واضح رہے 31 جولائی 2007 کو سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت بنا کر آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری اور آئین توڑنے کا مقدمہ چلائے۔