پاکستان کی انتخابی تاریخ میں انتخابی نشانوں کو وہ اہمیت کبھی حاصل نہ تھی جو اس دور میں ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان بلے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے جبکہ مخالفین اور الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلا پی ٹی آئی کو دینے کے حامی نہیں ہیں۔
ایک نئی سیاسی جماعت بھی بلے کا نشان حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر چکی ہے، پشاور ہائیکورٹ نے پہلے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کیا تھا تاہم اب پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر کے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا دے دیا ہے۔
Related Posts
ماضی میں الیکشن مہم کے لیے ترانے اور نعرے مقبول ہوتے تھے تاہم اب انتخابی نشان زیادہ مقبول ہو گئے ہیں، 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا وہ پورے پاکستان میں مقبول ہوا لیکن آج چند ہی لوگ جانتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے وہ الیکشن تیر کے نہیں بلکہ تلوار کے نشان پر لڑا تھا، موجودہ دور میں پی ٹی آئی کسی اور چیز سے زیادہ بلے سے جبکہ ن لیگ اپنے انتخابی نشان شیر سے جانی و پہچانی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جلسوں، ریلیوں اور الیکشن آفس میں تشہیر بھی سب سے زیادہ انتخابی نشانوں کی ہو رہی ہوتی ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مقبول و معروف سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابی نشان تیر، مسلم لیگ ن کو شیر اور پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان کب اور کیسے ملا۔ اس کے لیے نصف صدی سے زیادہ شعبہ صحافت سے منسلک سینیئر صحافی اور روزنامہ جنگ کے بیورو چیف حافظ طاہر خلیل سے خصوصی گفتگو کی۔
انتخابی نشانات کی روایات بہت پرانی ہے، حافظ طاہر خلیل
سینیئر صحافی حافظ طاہر خلیل نے بتایا کہ انتخابی نشانات کی روایت بہت پرانی ہے، عام لوگوں کے زیر استعمال چیزیں ہی انتخابی نشان ہوا کرتے تھے، 1971 کے عام انتخابات میں 2 بڑی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا، اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی پارٹی کا نشان کشتی تھا۔
حافظ طاہر خلیل کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاالحق کے دور میں جب پیپلز پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تو انتخابی نشان تلوار ختم کر دیا گیا اور اسے انتخابات کے لیے ملنے والے نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
1988 میں تلوار اور ہل کو انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا
انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ بننے کے بعد 1988 میں 2 معروف انتخابی نشان تلوار اور ’ہل‘ کو نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر اپنا پہلا انتخاب 1992 میں لڑا، اس کے بعد سے پیپلز پارٹی ہر انتخابات میں حصہ تیر کے نشان پر لے رہی ہے۔
’یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کا انتخابی نشان تیر ہے، پی پی امیدواروں کو ٹکٹ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کی طرف سے دیے جاتے ہیں جس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہیں‘۔
ن لیگ نے سائیکل نہ ملنے پر شیر کا نشان لیا تھا
سینیئر صحافی حافظ طاہر خلیل نے وی نیوز کو بتایا کہ 1993 میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن سائیکل کا انتخابی نشان لینا چاہتی تھی تاہم اس وقت سائیکل کا نشان آئی جے آئی کے پاس تھا، انتخابی نشان الاٹ کرنے سے قبل الیکشن کمیشن کے اجلاس میں ن لیگ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل سرتاج عزیز موجود تھے اور انہوں نے سائیکل کا نشان طلب کیا جو کہ نہ مل سکا، اُس وقت سرتاج عزیز نے میاں نواز شریف کو فون پر اطلاع دی کہ سائیکل کا نشان نہیں مل رہا، جس پر میاں نواز شریف نے استفسار کیا کہ کون کون سے نشان ہیں؟ اگر شیر کا نشان ہے تو وہ لے لیں۔
طاہر خلیل کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 1993 میں پہلی مرتبہ شیر کا انتخابی نشان حاصل کیا، اس سے قبل شیر کا نشان 1964 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ قیوم گروپ کے پاس تھا، قیوم خان کو شیر سرحد کہا جاتا تھا اور ان کے انتقال کے بعد پارٹی ختم ہو گئی اور بعدازاں شیر کا نشان مسلم لیگ ن کو مل گیا۔
بلا پی ٹی آئی کو ملنے سے قبل ایک آزادامیدوار کا نشان تھا
انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا 1993 کے عام انتخابات میں بھی تھا تاہم یہ آزاد امیدوار کا نشان تھا جو کہ ایک کھلاڑی تھا، اس وقت بلا، گیند، فٹ بال، ہاکی سمیت دیگر نشان تھے تو سہی لیکن معروف نہیں تھے اور کھلاڑی امیدوار ہی ایسے نشانات پر الیکشن لڑا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی نے بلے کے نشان پر پہلا انتخاب 2002 میں لڑا تھا اور اس کے بعد سے یہ نشان پی ٹی آئی کے پاس ہے۔
’سال 2013 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے شیر، پیپلز پارٹی کے تیر، جمعیت علمائے اسلام کے کتاب اور دیگر جماعتوں کے انتخابی نشانات کی طرح بلا بھی مقبول ہو گیا، اب بلے کا نشان عمران خان اور پی ٹی آئی کی پہچان بن چکا ہے‘۔
سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی نشانات بڑی اہمیت رکھتے ہیں
حافظ طاہر خلیل نے کہاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے انتخابی نشانات بڑی اہمیت رکھتے ہیں، الیکشن کے روز پارٹی اپنے نشان سے پہچانی جاتی ہے، اگر کوئی شخص پارٹی نشان کا اسٹیکر لگا کر گھومتا ہے تو لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ کس پارٹی کی حمایت زیادہ ہے۔