یہ نومبر 2023 کی بات ہے جب مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ان دونوں جماعتوں کا اب اتحاد ہوگیا ہے اور دونوں جماعتیں ملکر 2024 کا انتخاب لڑیں گی۔
اس اعلان کے بعد کچھ کمیٹیاں بنیں تاکہ مستقبل کے اہم فیصلے کیا جاسکے لیکن ان تمام فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ کراچی کا حلقہ این اے 242 سے متعلق تھا کیونکہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے یہاں سے انتخاب لڑا تھا اور وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فیصل واؤڈا سے 600 ووٹوں کے مارجن سے شکست کھا گئے تھے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینیئر مصطفیٰ کمال کو ان کی پارٹی نے پہلے ہی اس حلقے سے نامزد کردیا تھا۔
Related Posts
اس حلقے سے متعلق صوبائی سطح پر بھی ایک کمیٹی بنی اور مسلم لیگ ن کی یہ خواہش تھی کہ ایم کیو ایم اس حلقے میں شہباز شریف کی حمایت کرے، مگر صورتحال گزشتہ روز اس وقت دلچسپ صورتحال اختیار کرگئی جب ایم کیو ایم نے کراچی کے 22 حلقوں میں سے 18 میں اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا اور حلقہ این اے 242 پر مصطفی کمال کا نام موجود تھا۔
اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے لیے وی نیوز نے کراچی کی سیاست کو کور کرنے والے صحافی فیض اللہ خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ جب مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم سے این اے 242 پر حمایت مانگی تو جواب میں ایم کیو ایم نے یہ مطالبہ رکھا کہ وہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر حمایت کے لیے تیار ہے لیکن بدلے میں اس حلقے میں موجود دونوں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر ایم کیو ایم کی حمایت کی جائے، لیکن غالب امکان یہ ہے کہ اب تک اس حوالے سے کوئی بات نہیں بن سکی ہے۔
فیض اللہ خان نے وی نیوز کو مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سے متعلق بتایا کہ پارٹی کی مقامی قیادت اس حوالے سے خوش ہی نہیں تھی کہ ایم کیو ایم سے حمایت طلب کی جائے کیونکہ اس حلقے میں دونوں جماعتوں کا اپنا الگ ووٹ بینک ہے اور اگر ایم کیو ایم حمایت کر بھی دے تو مسلم لیگ ن کو اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔
مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ ایم کیو ایم نے پارٹی کو یہ کہا کہ وہ ملیر کی مختلف سیٹوں پر مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہے مگر بات یہ ہے کہ وہاں تو خود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک نہیں ہےتو بھلا وہاں پارٹی کو کس طرح فائدہ ہوسکتا ہے؟
یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مصطفی کمال وہ واحد پارٹی رہنما ہیں جو 2 حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں، یعنی این اے 242 اور این اسے 247۔ اس حوالے سے فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال کا 2 حلقوں سے انتخاب لڑنا یہ بتارہا ہے کہ ایم کیو ایم اس بات پر تو تیار ہے کہ این اے 242 پر مسلم لیگ ن کی حمایت کی جائے مگر اس کے لیے وہ اچھا سودا کرنا چاہ رہی ہے اور ممکن ہے اگلی حکومت کے قیام سے متعلق بھی اس کے کچھ مطالبات ہوں۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے اس پوری صورتحال پر کہا کہ اگرچہ ایم کیو ایم نے ابتدائی فہرست میں این اے 242 پر مصطفی کمال کا نام رکھا ہے مگر امکان یہی نظر آرہا ہے کہ وہ دستبردار ہوجائیں گے۔ انہوں نے بھی اس جانب اشارہ کیا کہ ایم کیو ایم یہ چاہتی ہے کہ این اے 242 کے بدلے دونوں صوبائی نشستوں پر ایم کیو ایم کی حمایت کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے دستبردار ہونے کے امکان اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ ایم کیو ایم کی صورتحال اس بار کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ماضی کی طرح یہ ممکن نہیں کہ پتنگ کے نشان پر ووٹ آسانی سے مل جائے بلکہ پارٹی کو اس وقت گراؤنڈ پر سخت محنت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان میں اتحاد ہوگیا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ دونوں کے کارکنان اب تک ایک نہیں ہوسکے ہیں لہٰذا پارٹی کو اندرونی مسائل کا سامنا بھی درپیش ہے۔