بلوچستان کے 2 اضلاع میں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے 2 امیدواروں پر 2 مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں جس میں این اے 258 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اسلم بلیدی پر تربت میں اس وقت فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا جب وہ میر عیسٰی قومی پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔
اسی دوران نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اسلم بلیدی شدید زخمی ہو گئے، انہیں فوری طورپر تربت کے ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسپتال انتظامیہ کے مطابق ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی۔
Related Posts
دوسری جانب صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں جمعرات کی صبح جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے امیدوار مولوی مہر اللہ پر اس وقت نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا جب وہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد واپس گھر لوٹ رہے تھے۔
مولوی مہر اللہ پر حملے کے ذمہ دار ڈی آئی جی ہیں، جمعیت علمائے اسلام
مولوی مہر اللہ پی بی 45 سے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے امیدوار ہیں اس حملے میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے تاہم جمعیت علماء اسلام نظریاتی کی جانب سے اس معاملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی۔
جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو پہلے سے ہی خدشات سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا اس لیے اس حملے کے ذمہ دار ڈی آئی جی کوئٹہ ہیں جنہیں بار ہا سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
پارٹی کے مطابق انتخابات میں حصہ لینا جمہوری عمل کا حصہ ہے مگر شرپسند عناصر انہیں اس جمہوری عمل سے دور کرنا چاہتے ہیں انتخابی امیدواروں پر ہونے والے حملوں سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوا ہے کہ آئندہ عام انتخابات پر امن ہوسکیں گے یا نہیں؟
حکومت پر امن انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے، صوبائی وزیر داخلہ
اس بارے میں وی نیوز سے بات کرتے ہوئے نگران صوبائی وزیرداخلہ میر زبیر جمالی نے دونوں واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے حکومت تمام وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے اور اس سلسلے میں فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انتخابی عمل ایک پرامن ماحول میں جاری رہ سکے۔
امیدوار کی درخواست پر سیکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کریں گے، زبیر جمالی
انہوں نے کہا کہ امیدواروں سے اس حوالے سے بات ہو چکی ہے کہ وہ خود بھی سیکیورٹی معاملات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائیں، تاہم اگر کسی امیدوار کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست موصول ہوتی ہے تو صوبائی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایسے امیدواروں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جا سکے۔ نگران حکومت امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
سیکیورٹی معاملات کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی آمد سے قبل امیدواروں پر فائرنگ کے واقعات دراصل جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم جب بھی عام انتخابات کا دور دورہ ہوتا ہے تو پورے ملک خصوصاً بلوچستان میں ایسے شرپسند عناصر جو ملک اور صوبے کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے وہ شرپسندی کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نگران حکومتوں اور سیکیورٹی فورسز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ملک اور بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھیں۔
ماضی میں بھی انتخابی عمل کے دوران شر انگیزی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی رضوان سعید نے وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کوئی نئی بات نہیں ہے، ماضی میں بھی انتخابات سے قبل نہ صرف انتخابی امیدواروں بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اس عمل سے دور رکھنے کے لیے شر انگیزی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
سال2018ء کے عام انتخابات کے دوران بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات ہوئے تھے جس میں سب سے بڑا واقعہ مستونگ میں اس وقت پیش آیا جب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نوابزادہ سراج رئیسانی کی ایک کارنرمیٹنگ کے دوران خود کش حملہ کیا گیا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 200سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ الیکشن ڈے کے روز بھی بھوسا منڈی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر خودکش دھماکہ کیا گیا تھا جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
رضوان سعید کے مطابق انتخابات جمہوریت کا حسن ہیں اور ان کا انعقاد ہر ممکن ہونا چاہیے۔ بلوچستان چوں کہ امن و امان کے حوالے سے ایک حساس مقام ہے تو یہاں باقی صوبوں کی نسبت امن و امان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔