کہتے ہیں جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔
یہی سوچ کر سوئٹزرلینڈسے چھٹیوں پر اسلام آباد آیا ہوا چھوٹا بھائی بضد تھا کہ ” مینوں وی لہور ویکھنا اے “ لیکن سموگ کی وجہ سے جیسا آج کل لاہور ہے لگتا نہیں کہ ایک عرصے سے شہر والوں نے بھی لاہور کو دیکھا ہوگا۔ خیر بہن بھائیوں کے ساتھ لاہور یاترا کرنے کا اپنا ہی ایک مزا ہوگا یہ سوچ کر نکل پڑے اسموگ میں بھی لاہور کی جانب۔
ہم تین بہنیں اور ایک بھائی جبکہ ایک بہن کا بیٹا اور دوسری کی بیٹی بھی ہمراہ ہولی۔ اسلام آباد میں سورج پوری توانائی سے آسمان پر موجود تھا۔آنکھوں پر چشمے چڑھائے تام جھام کے ساتھ ہم سب جب گاڑی میں براجمان ہوئے تو امی اپنے بچوں کے مذہبی رجحانات سے واقف ہونے کی بنا پر گاڑی کے قریب آئی اور غالباً آیتہ لکرسی اور درودشریف زیر لب پڑھ کر ہم سب پر پھونک ماری ، پھر گاڑی پر حصار باندھا۔ اسموگ کی وجہ سے ہمیں گاڑی آہستہ چلانے کی تنبیہ بھی کی۔
ہم سب گاڑی میں چپ سادھے بیٹھے تھے کہ امی کی کاروائی جلد مکمل ہو تو ہم اونچی آواز میں اسپوٹی فائی پر اپنے پسندیدہ گانے لگائیں اور گاڑی کو جی ٹی روڈ پر بھگائیں۔ جی ٹی روڈ کا سفر موٹر وے سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے لیکن جب آپ کے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہی ہوں تو دل کرتا ہے کہ جلد از جلد اپنی جائے منزل پر پہنچا جائے۔ سوچا تو یہ تھا کہ جی ٹی روڈ پر دھند نہیں ملے گی پر جہاں جہلم کی حدود ختم ہوئی وہیں سے ایسی اسموگ شروع ہوئی کہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ گاڑی لا محالہ آہستہ چلانی پڑ رہی تھی۔ بہن کی بیٹی رانیہ بار بار اپنی اماں کی خلاف توقع سست ڈرائیونگ پر حیران ہوتی اور کہتی” اماں وائے ڈونٹ یو ریس دا کار“؟
اصل میں اُس کو اپنی دوست سے ملنے کی جلدی تھی جو حال ہی میں لاہور شفٹ ہوئی تھی۔ خیر پانچ گھنٹے کا سفر آٹھ گھنٹے میں تمام ہوا۔ رانیہ کو اس کی دوست کے گھر ڈراپ کیا اور ہم پانچ پہنچے ڈاکٹر مبارک علی کے گھر۔ ڈاکٹر مبارک علی اور ذکیہ آنٹی کا گھر لاہور میں میرا میکہ ہے۔ ان کے تین کمروں کے فلیٹ کا ایک بڑا کمرہ مہمانوں کے لئے ہمیشہ مختص رہتاہے۔ وہیں ہم پانچوں نے اپنا سامان دھرا ، منہ ہاتھ دھو کر لاؤنج میں آئے تو ذکیہ آنٹی چینک میں دم والی چائے اور چاکلیٹ کیک میز پر سجائے ہمارا انتظار کررہی تھیں۔ چائے پیتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی سے کچھ دیر گپ شپ کر کے ہم نے ان کی چھوٹی بیٹی نینی کو اپنے ہمراہ لیا اور اندرون لاہور جانے کے لئے بطور خاص تمام کی تمام “چنگ چی” کا کرایہ اونگھتے ہوئے ڈرائیور سے طے کیا اور بیٹھ گئے اس میں ہم سارے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ گاڑی ہوتے ہوئے چن چی بھلا کیوں؟ ارے جناب اندرون لاہور میں گھومنے کا مزا رکشہ یا چنگ چی میں ہی آتا ہے۔ اسپیکر چونکہ ساتھ تھا تو چنگ چی میں بھی گانے سنتے حویلی ریسٹورینٹ پہنچے۔ لیکن ہر بار لاہور کا بے ہنگم اور بدتمیز ٹریفک دیکھ کر کراچی کے عفریت نما ٹریفک تک پر بڑا پیار آتا ہے۔
رات میں پورا شہر دھند کی دبیز رضائی میں ڈھکا ہوا تھا لیکن یہ دھند اسموگ کی تھی جس میں ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔
ریسٹورنٹ کے روف ٹاپ سے لب سڑک بادشاہی مسجد اور مینار پاکستان دھندلے ہیولوں کی مانند ہی نظر آسکے۔
اونچی دکان پھیکے پکوان اس مہنگے ریسٹورینٹ پر صادق آتا ہے۔ ہر بار پرانا لاہور دیکھنے کی قیمت پہلے سے زیادہ بدمزہ اور مہنگا کھانا کھا کر ادا کی۔
ہم اپنی میز پر ہلکی آوازمیں اسپیکر پر اپنے پسندیدہ گانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ریسٹورنٹ میں لائیو میوزک ہمارے جیسے کئی اور کسٹمر ز پر گراں گزر رہا تھا۔ ساتھ والی میزوں پر بیٹھے لوگوں نے بھائی سے فرمائش کی کہ آواز ذرا بڑھا دیں۔ بس پھر کیا تھا آس پاس ہر میز سے فرمائشی پروگرام شروع ہوگیا۔
رات تھک ہار کر ہم سب لمبی تان کر سوئے کہ علی الصبح دہلی گیٹ کی راہ لیں گے جہاں ہم بھی پہلے کبھی نہیں گئے تھے اور وہاں کا مشہورومعروف ناشتہ کریں گے۔
صبح آٹھ بجے ہم پانچوں نے اپنا سامان اٹھایا اور سب کو خدا حافظ کہا کہ اسلام آباد واپسی اسی شام ہی ہونی تھی۔ لاہور کا دہلی دروازہ مغل شہنشاہ اکبر کی فن تعمیر کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ ایسے تاریخی مقامات پہنچ کر خود کو آپ اسی دور کے باسی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ دلی کی کافی رج کر سیر کی ہوئی تھی تو ایسا لگا کہ پرانی دلی میں ہی گھوم رہے ہیں۔
دہلی گیٹ کی سرجن سنگھ گلی کی زیبائش اٹلی یا اسپین کی کسی گلی کی مانند ہی کی گئی ہے۔ اگر ایسی مزید گلیوں کو سجا دیا جائے تو منظر اور بھی حسین ہو جائے ! اس کے ساتھ ہی وہ مشہور زمانہ تنگ ترین گلی دیکھ کر واقعی حیرانی سی تھی کہ لوگ یہاں کیسے بستے ہیں؟۔
پوچھتے پاچھتے شاہی حمام پہنچے۔ چونکہ رانیہ تو اپنی دوست کے گھر تھی، پر ذہن میں 6 نفوس ہی سمائے ہوئے تھے تو سو بلا سوچے سمجھے 6 ٹکٹ خرید لیے۔ شاہی حمام کے کیئر ٹیکر ہمارے ساتھ ساتھ وزیر خان شاہی حمام کی تاریخ بتاتے ہوئے چل رہے تھے۔ ایک دم کچھ سوچ کر بولے کہ آپ لوگ تو 5 ہیں تو 6 ٹکٹ کس واسطے لیے۔
Related Posts
ہم بھائی بہنوں کو شرارت سوجھی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم نے طے کر لیا کہ کیا کہانی گھڑنی ہے۔
جناب ہم 6 ہی ہیں۔ لیکن وہ آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ آجاؤ منجلیکا ادھر۔۔۔میں نے پیچھے دیکھ کر ایسے اشارہ کیا کہ جیسے کوئی میرے پیچھے ہو ۔
شاہی حمام کا وہ حصہ جہاں فوارہ بنا ہوا تھا وہاں آواز خوب گونجتی ہے۔
میرے ڈھولنا سن ۔۔۔میرے پیار کی دھن
میری بہن نے ذرا ڈرامائی انداز میں باقاعدہ اونچی آواز میں گنگنانا شروع کردیا۔ جس سے ایک عجیب پراسرار سا سماں بندھ گیا۔
سامنے مغل دور کی آخری یادگار روشندان کی طرف دیکھ کر میں نے زور سے سرزنش کی جیسے وہاں کوئی موجود ہو ’ ارے منجلیکا تم وہاں کیوں اکیلی کھڑی ہو۔ چلو فوراً یہاں آؤ سب کے ساتھ‘
میرے ڈھولنا سن ۔۔۔۔ میرے پیار کی دھن ۔۔بہن نے گانے کی گردان شروع کردی۔
کیئر ٹیکر کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتی صاف نظر آرہی تھیں۔ وہ واقعی سمجھا کہ کوئی روح وغیرہ ہمارے ہمراہ یہاں کا دورہ کرنے آئی ہوئی ہے۔
ڈریں نہیں انکل یہ منجلیکا بالکل بے ضرر سی روح ہے۔ بھائی نے انہیں مطمئن کیا اور بظاہر ان کی بدحواسی کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ۔ ’جی آپ کچھ حمام میں پانی کی ترسیل کے بارے میں بتا رہے تھے۔‘
یہ 4 سو سال پہلے وزیر خان نے حمام بنوایا تھا۔ انگھیٹیوں میں کوئلے دہکا کر پانی کی لائنوں کے ِسروں پر رکھا جاتا تھا ۔۔۔ کیئر ٹیکر صاحب! اپنی رو میں بتائے جارہے تھے کہ ہم نے رازداری سے پوچھا۔
آپ کو یہاں کوئی روحیں نظر آتی ہیں ؟
نہیں جی ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کیئر ٹیکر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
بھئی یہاں لوگ نہانے آتے تھے تو کبھی پانی بند ہوجاتا ہوگا تو کیا کبھی کوئی آواز وغیرہ آپ کو سنائی دی کہ پانی نہیں آرہا، موٹر چلا دو وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہم بڑے سنجیدہ انداز میں دور کی کوڑی لائے۔
سر جی اس وقت کہاں موٹر شوٹر ہوا کرتی تھیں۔ ویسے میں یہاں کئی سال سے کیئر ٹیکر کی نوکری کر رہا ہوں۔ ایسا کوئی واقعہ نظر سے نہیں گزرا۔ انہوں نے ہمارے مذاق کو نہ سمجھتے ہوئے۔ معصومیت سے جواب دیا۔
خیر یہ ڈراما تقریباً 15 ، 20 منٹ جاری رہا ۔
پھر ہم نے ہنستے ہوئے انہیں سارا قصہ سنایا وہ صاحب ہماری زندہ دلی سے کافی محظوظ ہوئے اور ہنستے ہوئے برجستہ سوال کر بیٹھے ’ آپ لوگ کراچی کے ہیں نا؟‘ ہم نے انہیں بتایا کہ ’جی بالکل ! لیکن ہم سب بہن بھائی پچھلے 15 ، 20 سال دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے کے بعد اب اسلام آباد میں بستے ہیں لیکن کراچی ہمارا اور ہم کراچی کا پیچھا چھوڑنے کو قطعی تیار نہیں ۔ کیئر ٹیکر ہمارا جواب منہ کھولے سنتے رہے اور پھر سر ہلاتے ہوئے ’ ہاں جی ہاں جی ‘کہنے لگے۔
ہم کراچی سے ناتا چھوڑیں بھی کیوں اور کیسے بھلا؟ کراچی کی زندہ دلی، گرمجوشی، حس لطافت ہی نے تو ہمیں اسلام آباد کے ’ ٹھنڈ پروگرام ‘ سے لڑنے کا حوصلہ مہیا کیا ہواہے۔
خیر منجلیکا والی تو فرضی کہانی تھی لیکن دیواروں کے کان والا محاورہ تو سب نے سنا ہوگا۔ مغلوں نے واقعی برصغیر کی تعمیرات میں ایسے کارنامے سرانجام دیے جو واقعی حیران کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ فتح پور سیکری ہو یا دہلی کا لال قلعۂ یا تاج محل، دیواروں کے کونے موبائل فون کی طرح کا کام کرتے ہیں۔
ہم چاروں بہن بھائی چاروں کونوں میں دیوار سے منہ لگاکر آہستہ سے جو بھی بات کرتے وہ دوسرے کونے پر سنائی دیتی۔ اس دیوار کے مواصلاتی نظام کے ساتھ بھی ہم نے بڑا شغل لگایا۔
شاہی حمام سے نکل کر اب پیٹ پوجا کی خواہش زور پکڑ رہی تھی۔ ایک سکھ دکاندار سے کوئی اچھی ناشتہ کی جگہ کا پتا پوچھا تو سردار جی نے بتایا کہ ’مٹھو کی حلوہ پوری ‘ جیسا ناشتہ پورے لاہور میں کسی کا نہیں۔
بس پھر کیا تھا چلے مٹھو میاں کی دکان کی طرف۔ گلیاں در گلیاں اور ان تنگ گلیوں میں طرح طرح کی دکانیں جن میں ٹافی بسکٹ سے لے کر ڈرائی کلینز اور مردانہ کمزوری کے دواخانوں سے لے کر بچوں میں مناسب وقفہ کے مراکز تک شامل تھے۔ لیکن تنگ اور پتلی گلیوں میں صفائی ستھرائی کا عنصر نمایاں تھا۔
کئی دکانوں کا منظر اور گلیوں کی ساخت حیدرآباد کے کچھ علاقوں کی بھی یاد دلا رہے تھے۔
رستے میں کئی حلوہ پوری والے آئے اور ڈھٹائی سے ہم انہی سے ان کے رقیب کا پتا پوچھتے جاتے اور وہ ہمیں ناک بھوں چڑھا کر آگے جانے کا اشارہ کر دیتے۔
چونکہ دل و دماغ پر مٹھو میاں ہی سوار تھے تو ہم ان دکانداروں کے چہروں کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی مسکین صورت بنا کر شکریہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے اور پھر رکی ہوئی ہنسی کا فوارہ آگے جا کر یکدم چھوٹ جاتا۔
وزیر خان مسجد کے دائیں ہاتھ جانے والی اندرونی گلیوں سے گزر کر آخرکار ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچے۔ ایک عام سی صاف ستھری دکان جس پر ایک جانب بڑی سی کڑھائی میں تیل متناسب آنچ پر پک رہا تھا۔
ایک لڑکا بنا بیلن کے ہاتھ سے آٹے کے پیڑے کو پوری میں تبدیل کرکے اس کڑھائی میں ڈالتا تو پوری پھلکے کی طرح گول گپا ہوجاتی۔ دوسری جانب ایک بڑی عمر کے خوش شکل حضرت بیٹھے ایک بڑے سے گول تسلے میں حلوے کو کفگیر سے الٹ پلٹ رہے تھے۔
ساتھ ہی چنے کا سالن اور آلو کی ترکاری کے پتیلے رکھے تھے اور بیچوں بیچ ایک اور تسلے میں ڈھیر ساری کچوریاں بھی رکھی ہوئی تھیں جن کا سائز کراچی کی کچوریوں سے کافی بڑا تھا۔
یہ مٹھو میاں کی دکان ہے؟ ہم سب کے منہ سے سوال ایک ساتھ ہی نکلا۔
جی بالکل۔ خوش شکل حضرت نے خوشدلی سے جواب دیا۔
دکان پر چند گاہک بھی کھڑے تھے غالباً 2 خواتین اور 3 ، 4 مرد ۔ سب ہماری جانب متوجہ ہوئے لیکن کسی نے ہمارے سراپے پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی جبکہ ہم جینز اور ہوڈی میں ملبوس تھے ۔
ویسے ہیں ہم کراچی کے، رہتے اسلام آباد میں ہیں اور مٹھو میاں کی مشہور معروف حلوہ پوری کھانے لاہور آئے ہیں۔ میں نے پورا تعارف پہلے ہی کرانا مناسب سمجھا۔
حضرت اور دیگر گاہک بھی ملنساری سے مسکرائے اور بولے۔ آپ سب اندر آجائیں ۔
کہاں سے آئیں؟ دکان کے سامنے تسلے، پتیلے اور دہکتی ہوئی آگ پر چڑھی کڑھائی کو تعجب سے دیکھتے ہوئے ہم نے پوچھا۔
ایک گاہک نے دکان کے بائیں جانب ایک تنگ وتاریک گلی کی طرف اشارہ کیا۔
ہم سب جلدی سے گلی میں کھلتے دکان کے عقبی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ حلوہ پوری کی دلکش سنہری رنگت اور آلو چنے کے سالن کی اشتہال انگیز خوشبو نے بھوک کو مزید چار چاند لگا دیے۔
حسب معمول دکان کا ایک چھوٹو پھرتی سے 2 لکڑی کی بینچوں کے بیچ ایک میز رکھ کر اس پر کپڑا مارنے لگا۔
ہماری ترستی نگاہیں پھلکا نما پوریوں پر تھیں جو ساری کی ساری تیل میں پڑتے ہی پھول کر کپا ہوئی جارہی تھیں۔ پوری دکان ایک رسوئی کی جیسی تھی۔ پٹرے پر بیٹھے لڑکے کے ہاتھ پوریاں بنانے میں ماہر نظر آ رہے تھے۔
میں وہیں دکان پر موجود پٹرے پر بیٹھ کر پوریاں پکتی دیکھتی رہی۔ جب رہا نہ گیا تو پوری والے لڑکے سے کہا کہ ایک پیڑا مجھے دو میں ہاتھ سے بنا کر دیکھوں ذرا۔
لڑکے نے تعجب سے مجھے دیکھا اور پوچھا ’آپ بنائیں گی‘؟
ہاں کیوں نہیں ۔ میں نے اس کی حیرانی پر مسکرا کر جواب دیا۔
اچھا جی پر آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ آپ کھانا بھی بناتی ہوں گی۔ لڑکے نے پیڑا مجھے تھماتے ہوئے کہا۔
میں ہی نہیں یہ دونوں بھی بہترین کھانے بناتی ہیں ’ میں نے دونوں بہنوں کی طرف اشارہ کرکے کہا‘ اور کھانا بنانا ایک فن ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ لڑکے نے میری بات سن کر اثبات میں سر ہلایا ۔
لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ ہم بیلن سے پوری بیلنے والے، ہاتھ سے گول اور پتلی پوری بنانا کیا جانیں۔
خیر جب اکٹھی 10 پوریاں تیار ہو گئیں تو چھوٹو نے ہمارے آگے چنے، آلو کا سالن، حلوے کی پلیٹ اور پوریاں رکھ دیں۔
اچار ملے گا؟ ترکاری میں اچار کے بنا مزہ نہیں آتا۔ بہن نے چاؤ سے پوچھا۔
یہاں لوگ اچار نہیں لیتے اس لیے ہم رکھتے بھی نہیں، حضرت نے جواب دیا۔
پھر کچھ سوچ کر چھوٹو کو آواز لگائی اور مچان کی طرف اشارہ کر کے بولے ۔ وہ تھیلی اتار کر مجھے دو۔ چھوٹو نے تھیلی حضرت کو پکڑائی ۔ اس میں اچار تھا۔ آپ لوگ مہمان ہیں اس لئے بہت خاص اچار آپ لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ انھوں نے اچار سے پلیٹ بھر کر ہماری طرف پکڑائی۔
کیا مہین ، خستہ اور پوری طرح سکی ہوئی پوریاں تھیں کہ منہ میں رکھتے ہی گھلی جارہی تھیں۔ اچار نے چنے اور آلو کے سالن کا مزہ دوبالا کردیا تھا کہ تقریباً پانچ پلیٹیں ہم منٹوں میں چٹ کر گئے۔ سوجی کا دانے دار حلوہ مناسب مٹھاس لیے ہمارے منہ کے ذائقے کے حساب سے اعلیٰ تھا۔ بڑے عرصے بعد رج کر حلوہ پوری کا ناشتہ کیا ورنہ اسلام آباد کی صرف ایک ہی پوری کھانے کے بعد جی اوب جاتا ہے۔
پھر ہماری فرمائش پر تازہ دودھ پتی منگوائی گئی۔ حلوہ پوری کے بعد من پسند چائے کے گرم کپ کا سواد وہی جانتے ہیں جنھیں ادرک کا مزہ بھی معلوم ہو۔ بھئی واہ کیا کہنے ! سب کچھ توقع سے کہیں بڑھ کر تھا۔ کھانے پینے سے فراغت کے بعد جب تمام لوازمات کی قیمت پوچھی تو حضرت نے بڑی رسان سے کہا کہ آپ مہمان ہیں آپ سے کیا پیسے لیں گے۔
کچھ خاص رویے اور خلوص مخصوص ملکوں اور علاقوں کے لوگوں میں ہی پایا جاتا ہے ۔
پندرہ پوریوں اور پانچ پلیٹ سالن اور ایک حلوے کی پلیٹ کی قیمت صرف چھ سو روپے بنی تھی ۔ خیر اسکے ڈبل ہم نے خوشی سے انھیں دئیے اور شکریہ ادا کر کے دہلی گیٹ کے بیرونی حصے کی جانب قدم بڑھا دئیے جہاں اس تاریخی دہلی گیٹ کے باہر ہماری گاڑی اپنے مسافروں کا انتظار کر رہی تھی۔