ابھی جشن نہ مناؤ غبار چھٹنے دو

ہفتہ 13 جنوری 2024
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خدشات، تحفظات، پیش گوئیاں، مصلحتیں اور سہولت کاریاں سبھی بھید عیاں ہو چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی سیاست بہت دلچسپ ہے۔ کسی سنسنی خیز سیریز کی طرح۔ ایک طرف سیاسی میدان میں خوب بھونچال آئے وہیں عدالتی کاروائیوں اور ججز کے استعفوں سے بھی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ طولِ اقتدار ہو یا استحکام اقتدار تاریخ گواہ ہے کہ اس کو دوام نہیں۔

فرمائشی فیصلوں کے ذریعے بالواسطہ یا بلا واسطہ سہولت کاری کرنے والے تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب کوئی بغلیں جھانک رہا ہے تو کوئی بغلیں بجا رہا ہے۔ چکا چوند میں نئی چالوں اور نئے پینتروں کا حصہ بننے والے شاید نئے مطالبات کے لیےتیار نہیں تھےاور اسی کے اثرات آنے شروع ہو گئے۔

یہ اثرات عدلیہ اور سیاست دونوں میں دیکھے گئے۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں ججوں کی واضح تقسیم جو بالاخر استعفے کی صورت سامنے آئے، جسٹس مظاہر نقوی تو گئے جسٹس اعجاز الحسن کو بھی ساتھ لے گئے۔ بلکہ مزید استعفے آنے کی بھی شنید ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھےاور ن لیگ ان کی جانبداری پر سوال اٹھاتی رہی ہے۔اور استعفوں کے بعد جشن مناتی نظر آتی ہے کہ نواز شریف کو سیاست کی دوڑ سے باہر کرنے والے خود باہر ہو گئے۔

ان دو جج صاحبان کا موازنہ اب جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جاری ہے جن کی ہمت کی لوگ داد دیتے نہیں تھکتے۔ جن کو گرانے کے لیے عدالت، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تینوں کی تکون متحرک تھی لیکن تاریخ نے دیکھا کہ قاضی فائز عیسیٰ یا شوکت عزیز صدیقی نہیں بلکہ ان کو گرانے کے خواہشمند ہی جاتے نظر آئے اور اس وقت جب انتخابات سر پر ہیں ایسے میں ان کے استعفے نے بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں اوراس سے طلاطم کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

جہاں عدالتی شخصیات زِیر بحث ہیں وہیں سیاسی میدان میں بھی خوب ہلچل ہے۔ پابند سلاسل عمران خان جو بلا واپس لینے کی تگ ودو میں مصروف ہیں اور ان کی پارٹی ریت کے ذروں کی طرح بکھرتی ہی جا رہی ہے پھر بھی انہوں نے اپنے بیانات اور طرز سیاست کی وجہ سے سب کو اپنا گرویدہ بناکر انگلیوں پر نچایا ہوا ہے کبھی بیان بازی تو کبھی غیر ملکی جریدے میں ان کا مضمون موضوع بحث ہوتا ہے، وہ جیل میں رہ کر بھی سیاست سے آؤٹ نہیں ہوئے بلکہ ہیڈلائنز کا حصہ ہوتے ہیں۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے جو بھی بیانیہ اپنایا وہ کامیاب رہا اور خان صاحب کی یہ خوبی بھی ہے کہ وہ میدان میں رہنا اور اس کو سر کرنا خوب جانتے ہیں۔

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اگر کسی سیاسی جماعت کے اوپر سے ہٹ جائے تو اس کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے، لیکن اداروں کی مخالفت کے باوجود عمران خان نے مقبولیت کے ساتویں آسمان کو چھو لیا حتی کہ سیاست پر گفتگو عمران خان کا ذکر کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اسی لیے انہیں مستقبل میں بھی اپنی واضح جیت دیوار پر لکھی دکھائی دے رہی ہے۔ حال ہی میں اکانومسٹ نے ان کا مضمون چھاپا اور اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے ان کی تقریر کی تیاریاں بھی جاری ہیں اور دوسری جماعتیں تحریک انصاف کے مقابلے پر کہیں نظر نہیں آتیں۔ انہیں یہ غیر ضروری اعتماد تھا کہ عمران خان بچ نہیں پائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کو اپنی ’’اوقات “میں لانے کے قریب ہے۔

لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہواؤں کا رُخ اور وقت کے تیور بدلتے دیر نہیں لگتی، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا لائحہ عمل اور فیصلے ماضی کی سہولتکاریوں کے نتائج کو مد نظر رکھ کر کرنا ہوں گے۔ اور تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو جشن منانے سے پہلے غبار چھٹنے کا انتظار کرنا ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp