ارفع کریم جیسے بچے شاذ و نادر ہی کیوں نظر آتے ہیں؟

اتوار 14 جنوری 2024
author image

طاہر عمر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ارفع کریم کے نام سے کون واقف نہں۔ محض 9 سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کیا۔ اتنی کم عمری میں اس سنگ میل کو عبور کرنا ایک طرح کا معجزہ ہے جو ارفع کی خود اعتمادی اور زبردست کمیونیکیشن  سکلزکی بدولت رونما ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور ارفع سے خصوصی ملاقات کی۔

آج ارفع کی برسی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے  ہر سال آتی ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری طور پر منائی جاتی ہے۔ سرکار نے تو خیر لاہور کے  ٹیکنالوجی پارک کو ارفع کریم کے نام پہ رکھ کر  اپنا فرض ہمیشہ کے لیے پورا کردیا ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ کم از کم اس برسی پر اتنا جاننے کی کوشش تو کریں کہ آخر ارفع جیسے غیر معمولی بچے شاذ و نادر ہی کیوں نظر آتے ہیں؟ وہ کون سی صلاحیتیں تھیں جنہوں نے ارفع کریم کو منفرد بنایا اور ملک کے دیگر بچے ان صلاحتیوں کے مالک کیوں نہیں؟

میرا خیال ہے کہ گھر سے لے کر سکول تک بچے کو ملنا والا ماحول اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما، اس کی صلاحتیوں، اور طبعی رجحان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی پرورش محض تجرباتی ہے۔ ایک دوسرے سے سنے سنائے تجربے بچوں پہ کیے جاتے ہیں۔ عمومی طور پر تو والدین کا تربیت پہ فوکس بھی کم ہی ہوتا ہے۔ بچے سے جان چھڑانے کے لئے اس کو موبائل دے دیا جاتا ہے۔اور بچہ موبائل ایڈیکٹیڈ ہوجاتا ہے۔ خود محنت کرکے بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے ایکٹیویٹز ڈیزائن کرنے کا تو بالکل بھی رجحان نہیں ہے۔

بچوں میں خود اعتمادی، کرٹیکل تھنکنگ، فیصلہ سازی اور اقدار کو پروان چڑھانا بھی والدین کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ غیر ضروری ڈانٹ ڈپٹ اور سب کے سامنے بچوں کی تذلیل ان کے اندر اعتماد کی کمی لاتی ہے۔

کرٹیکل تھنکنگ کا تو بس کچھ نہ پوچھیے، بچہ سوال پوچھ لے تو رویہ گھر سے سکول تک یکساں ملتا ہے: “تم اب ہم سے سوال پوچھو گے؟”بیٹا ایسے سوال گستاخی اور گمراہی کہلاتے ہیں”۔

مجھے یاد ہے کہ سکول میں اگر غلطی سے ہم استاد سے کوئی سوال پوچھ بھی لیتے تو پہلے تو وہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے۔ پھر گرج کر بولتے، “ایدھر آ کے کن پھڑ لا” ( ادھر آکے مرغا بن جاوٴ)

بچہ فطری تجسس کا مارا ہوتا ہے۔ اس کا ننھا ذہن نہ سمجھ آنے والی گتھیاں سلجھانا چاہتا ہے مگر اس کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے کے بجائے اس کو چپ کرا دینے کی قبیح ریت بچے کو سوچنے سمجھنے کا عمل ہی ترک کر دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔

نمبر گیم ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا بدترین المیہ ہے کہ جس سے صرف رٹے کے ماہرین پیدا ہوتے ہیں۔ والدین بھی بچوں پہ دباوٴ ڈالتے ہیں کہ فلاں محلے دار کے بچے کے نمبر تم سے زیادہ ہیں، فلاں رشتہ دار کے بچے نے ٹاپ کرلیا ہے۔ اور اس دباوٴ کا نتیجہ ہے کہ کونسپٹ کی بجائے محض رٹہ ایک خوبی بن جاتا ہے۔

بچے کو فیصلہ سازی سکھائی ہی نہیں جاتی کون سے مضامین رکھنے ہیں اور کس فیلڈ میں جانا ہے۔ اس کا فیصلہ بچے کے والدین اور رشتہ دار پیدا ہوتے ہی کرلیتے ہیں کہ ہمارا بیٹا تو انجئنیر ہی بنے گا، ہماری بیٹی تو ڈاکٹر ہی بنے گی۔ بچے کے اندر فیصلہ کرنے کی صلاحیت تو دور کی بات اس کے انٹرسٹس بھی کہیں دب کے رہ جاتے ہیں۔

ان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بچوں کو اقدار سکھانا ہوں گی۔ سلیقے سے بات کرنا، طریقے سے اختلاف کرنا اور اپنی شخصیت میں نکھار لانے کے لئے لٹریچر اور آرٹ سے وابستگی پیدا کرنا ہوگی۔ بچوں کو سکھانا ہوگا کہ خواب دیکھیں، اور پھر ان کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ان کا معاون بننا ہوگا۔

ارفع کریم نے صرف 16 سال زندگی پائی اور بچوں اور والدین کے لئے مشعل راہ بن گئی۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں معاشرے میں ارفع جیسے مزید بلاصلاحیت بچے دیکھنے کو مل سکتے ہیں اگر تعلیم وتربیت کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں اور ان پر اپنے فیصلے تھوپنے کی بجائے ان کی دلچسپی کو ڈھونڈنے میں ان کی مدد کی جائے، اور پھر ان کی من پسند فیلڈ میں جانے کے لیے ان کو  مکمل سپورٹ  فراہم کی جائے۔

ارفع کریم اور میرا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔ اور کم ازکم فیصل آباد کے لیے میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کے بچے بلا کے ذہین ہیں۔ یقینی بات ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کے بچوں میں بھی فطری صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، بلکہ ہمیشہ فراوانی ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لیکن ہم ان بچوں کو وہ ماحول اور تربیت فراہم کرنے میں ناکام ہیں، جس سے ان کی فطری صلاحیتوں میں نکھار آئے۔ اگر ہمارے بچے کوئی قابل ذکر اچیومنٹس نہیں کر پا رہے تو اس میں ان کا قصور نہیں، سارا قصور ہمارا ہے: ہم پالیسی میکرز کا، ہم والدین کا، اور ہم اساتذہ کا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp