محسن نقوی کا تمغہ حسنِ کارکردگی

پیر 15 جنوری 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

محسن نقوی کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی تو اسٹیج پر براجمان محترمہ بے نظیر بھٹو کی توجہ ان پر مرکوز تھی۔ محترمہ سے اِذن سُخن ملتے ہی محسن نقوی کی آواز اسپیکر پر گونجی:
اے عظیم کبریا
سُن غریب کی دُعا
سازشوں میں گِھر گئی
بنتِ ارضِ ایشیا
لشکرِ یزید میں
اِک کنیزِ کربلا
فیصلے کی منتظر
اِک یتیمِ بے خطا
ٹال سب مصیبتیں
ہے دُعا تِرے حضور
واسطہ حسینؓ کا
توڑ ظلم کا غرور
یا اللہ، یا رسولؐ !
بے نظیر، بے قصور۔

جلسہ گاہ میں ہر طرف زندہ ہے بھٹو! زندہ ہے، کے نعروں کا شور تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے محسن نقوی کو پاس بلا کر ان کے کلام کو سندِ پذیرائی بخشی۔ 1990 میں حکومت کی برطرفی کے بعد یہ محترمہ بے نظیر بھٹّو کا پہلا دورہ ملتان تھا، جب محسن نقوی نے انہیں جلسۂ عام میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

محسن نقوی 1969 میں ملتان میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کی بنیاد رکھنے والوں میں پیش پیش تھے۔ محسن نقوی کی شاعری اور نثر رنگ جما چکی تھی، ان کی نظمیں اور مضامین حنیف رامے کے جریدے ’نصرت‘ اور مولانا کوثر نیازی کے پرچے ’شہاب‘ میں شائع ہونے لگے تھے۔

قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان کا دورہ کیا تو محسن نقوی نے اس جلسے میں بھی اپنا جوش خطابت اور کارِ سخن آزمایا اور خوب داد سمیٹی۔ یہی وجہ تھی کہ 1977 کے عام انتخابات کے لیے محسن نقوی کو ان کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان سے پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مفتی محمود کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا گیا لیکن بدقسمتی سے آمرِ وقت نے بھٹو کی مقبولیت کے پیشِ نظر انتخابات ملتوی کر دیے تھے۔

آمریت کی گرد چھَٹی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو 35 برس کی عمر میں اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ 1990 تک 5 شعری مجموعے محسن نقوی کا ادبی قد کاٹھ متعین کرچکے تھے، لہٰذا ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

محسن نقوی کے ضروری دستاویزات اور رضامندی بھی لے لی گئی تھی۔ 14 اگست 1990 کو یوم آزادی کے موقع پر قومی اعزازات کا اعلان کیا جانا تھا لیکن 6 اگست 1990 کو صدر اسحاق خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کر دی تھی۔

26 اگست 1992 کو لاہور میں محسن نقوی کے شعری مجموعے ’طلوع اشک‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ یہ وہی دن تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوپہر 12 بجے لاہور سے ’ٹرین مارچ‘ کا آغاز کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے تقریبِ پذیرائی کی صدارت کے لیے خصوصی وقت نکالا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی تقریر میں بتایا تھا کہ کس طرح ان کی حکومت کی برطرفی کے باعث محسن نقوی کا ’تمغہ برائے حسن کارکردگی‘ بھی جاتا رہا۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی تقریب میں محسن نقوی کو ’عوامی ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی پھر اقتدار میں آئی اور 19 اکتوبر 1993 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ حیرت انگیز طور پر محض قریباً پونے 4 برس کے دوران 3 حکومتیں بنیں اور حق، حق دار تک یوں پہنچا کہ 23 مارچ 1994 کو محسن نقوی کو صدارتی ’تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‘ عطا کیا گیا تھا۔

آج اردو کے قادرالکلام شاعر محسن نقوی کی 28ویں برسی ہے۔ وہ 15 جنوری 1996 کو لاہور میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔

عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس تھا۔ وہ 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1970 میں گورنمنٹ کالج ملتان سے ایم اے اردو کیا، اسی دوران ان کا پہلا شعری مجموعہ ’بند قبا‘ شائع ہوا تھا۔

ان کے دیگر شعری مجموعوں کے نام بالترتیب: برگ صحرا، موج ادراک، ردائے خواب، ریزہ حرف، عذاب دید، طلوعِ اشک، رختِ شب اور خیمہ جاں ہیں جب کہ ان کا مذہبی کلام موجِ ادراک، فراتِ فکر اور حقِ ایلیا کے نام سے شائع ہوا۔ محسن نقوی کے کلام کے چند نمونے نذرِ قارئین ہیں:

یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی

یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی

اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا
اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

پاگل آنکھوں والی لڑکی

پاگل آنکھوں والی لڑکی
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
کانچ سے نازک خواب تمہارے
ٹوٹ گئے تو
پچھتاؤ گی
سوچ کا سارا اجلا کندن
ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا
کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم
کھل جائے گا
تم کیا جانو
خواب سفر کی دھوپ کے تیشے
خواب ادھوری رات کا دوزخ
خواب خیالوں کا پچھتاوا
خوابوں کی منزل رسوائی
خوابوں کا حاصل تنہائی
تم کیا جانو
مہنگے خواب خریدنا ہوں تو
آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں یا
رشتے بھولنا پڑتے ہیں
اندیشوں کی ریت نہ پھانکو
پیاس کی اوٹ سراب نہ دیکھو
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

مری گلی کے غلیظ بچو

مری گلی کے غلیظ بچو
تم اپنے میلے بدن کی ساری غلاظتوں کو ادھار سمجھو
تمہاری آنکھیں
اداسیوں سے بھری ہوئی ہیں
ازل سے جیسے ڈری ہوئی ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ پپڑیوں کی جمی ہوئی تہہ یہ کہہ رہی ہے
حیات کی آبجو پس پشت بہہ رہی ہے
تمہاری جیبیں منافقت سے اٹی ہوئی ہیں
سبھی قمیصیں پھٹی ہوئی ہیں
تمہاری پھیکی ہتھیلیوں کی بجھی لکیریں
بقا کی ابجد سے اجنبی ہیں
تمہاری قسمت کی آسمانی نشانیاں اب خطوط وحدانیت کا مقسوم ہو رہی ہیں
نظر سے معدوم ہو رہی ہیں
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے ماں باپ نے تمدن کا قرض لے کر
تمہاری تہذیب بیچ دی ہے
تمہارا استاد اپنی ٹوٹی ہوئی چھڑی لے کے چپ کھڑا ہے
کہ اس کے سوکھے گلے میں نان جویں کا ٹکڑا اڑا ہوا ہے
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے میلے بدن کی ساری غلاظتیں اب گئے زمانوں کے ارمغاں ہیں
تمہارے ورثے کی داستاں ہیں
انہیں سنبھالو
کہ آنے والا ہر ایک لمحہ تمہارے جھڑتے ہوئے پپوٹوں سے جانے والے دنوں کی کھرچن اتار لے گا
مری گلی کے غلیظ بچو
ضدوں کو چھوڑو
قریب آؤ
رتوں کی نفرت کو پیار سمجھو
خزاں کو رنگ بہار سمجھو
غلاظتوں کو ادھار سمجھو

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp