ایران نے کرد نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کی خبر دینے کے ’جرم‘ میں ایک سال سے زائد عرصہ سے جیل میں قید 2 خواتین صحافیوں کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے 2 خواتین رپورٹرز 31 سالہ نیلوفر حمیدی اور 36 سالہ الھہ محمدی کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے، ان کی ضمانت 2 لاکھ ڈالر(1 لاکھ 55 ہزار پاؤنڈ) کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئی ہے، ان کے خلاف مقدمات چلتے رہیں گے۔
قبل ازیں انہیں بالترتیب 13 اور 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم اب انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر فوٹیج میں رہائی پانے والی رپورٹرز کو اپنی رہائی کے بعد اہل خانہ اور دوستوں کو گلے لگاتے دکھایا گیا ہے۔
After 16 months of unjust imprisonment, heroic journalists #ElahehMohammadi & #NiloofarHamedi who broke the story of #MahsaAmini’s murder in custody that ignited Iran’s #WomanLifeFreedom uprising, have been released on heavy bail while they appeal their lengthy sentences. pic.twitter.com/nmOOoLizbd
— Nazanin Boniadi (@NazaninBoniadi) January 14, 2024
Journalism is not a crime, yet Niloofar Hamedi and Elaheh Mohammadi face 13 and 12 years in prison for their commitment to truth. Let’s stand for press freedom and demand justice.#NiloofarHamedi #ElahehMohammadi #MahsaAmini #WomanLifeFreedom#نیلوفر_حامدی #الهه_محمدی… pic.twitter.com/z2PcQgaEpH
— عاشقان ایران (@IranLoversTo) January 14, 2024
رپورٹر نیلوفر حمیدی نے مہسا امینی کی موت کی خبر بریک کی تھی۔ انہوں نے مہسا امینی کے والد اور دادی کو گلے لگاتے ہوئے تصویر کھنچوائی جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کی موت ہوگئی ہے اور اسے اس عنوان کے ساتھ آن لائن پوسٹ کیا تھا کہ ‘سوگ کا سیاہ لباس ہمارا قومی پرچم بن گیا ہے۔’
رپورٹر الھہ محمدی ایرانی اخبار ہم میہان سے وابستہ تھیں، مہسا امینی کی وفات پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کس طرح سینکڑوں سوگواروں نے ‘عورت، زندگی، آزادی’ کے نعرے لگائے۔
مہسا امینی کی وفات کے بعد دونوں صحافیوں کو احتجاج شروع ہونے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا، ان پر امریکی حکومت کے ساتھ تعاون اور قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2022 میں ایران کی اخلاقی پولیس نے اسکارف قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ایک کرد نوجوان خاتون مہسا امینی کو گرفتار کیا تھا، وہ پولیس کی حراست میں جاں بحق ہوگئی تھی، پولیس کا کہنا تھا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئیں۔ تاہم مہسا امینی کے ورثا کہنا تھا کہ مہسا امینی کے سر میں لوہے کا راڈ مارا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہوگئی اور پھر اسی بے ہوشی کے دوران ہی چل بسی۔
مہسا امینی کی وفات کے بعد ایران میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ کئی ماہ تک پولیس اور مظاہرین کے ساتھ تصادم جاری رہا، جس سے متعدد پولیس اہلکاروں سمیت سینکڑوں مظاہرین جاں بحق بھی ہوگئے تھے۔