لاہور کا این اے 127 جسے 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں بڑے مقابلے کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ رہا ہے یہاں سے قریباً ن لیگ ہی یہاں سے کامیاب ہوتی آرہی ہے ۔آخری دفعہ جب 2021 میں اس حلقے میں ضمنی الیکشن ہوا تھا تو ن لیگ کی شائستہ پرویز ملک یہاں سے کامیاب ہوئی تھیں۔ ضمنی الیکشن یہاں لیگی رہنما ملک پرویز کی وفات کے بعد ہوا تھا، 2018 میں وہ یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔
2021 کو ہونے والی ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے اسلم گل نے 33 ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے، شائشتہ پرویز ملک 14 ہزار کے مارجن سے کامیاب ہوئیں تھی۔ اس وقت حلقے کے اندر پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھر پور کمپین کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو نے لاہور میں قریباً 2 ہفتے گزارے ہیں اور انہوں ان 14 دنوں میں این اے 127 کو فوکس کیا، اس حلقے کے مختلف علاقوں میں گئے جلسے کیے کارنر میٹنگز کیں اور اہل علاقہ نے بلاول بھٹو کے لیے ریڈ کارپٹ پچھایا۔
خراب گلیوں میں انہیں پھولوں کی سیج میں علاقے کی عوام سے ملوایا گیا، بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری سرور سے ملاقات کرکے اس حلقے میں جو ان کا ووٹ بنک ہے ان کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ چوہدری سرور بھی بلاول بھٹو کے لیے حلقے میں ووٹ مانگیں گے۔
اس طرح دوسرا حلقہ تحریک منہاج القران یعنی طاہر القادری کا ہے اس حلقے میں طاہر القادری کی منہاج یونیورسٹی بھی ہے اور طاہر القادری اس حلقے سے ایک دفعہ کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں بھی جا چکے ہیں۔ پچھلے دنوں بلاول بھٹو اس حلقے میں طاہر القادری کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے مرکزی سیکریٹریٹ منہاج القرآن بھی گئے تھے جہاں پر انہیں بھر پور ویلکم کیا گیا اور تحریک منہاج القرآن نے بلاول بھٹو کی بھر پور سپورٹ کا اعلان بھی کیا ہے۔
مزید پڑھیں
بلاول بھٹو نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے اور وہاں کھڑے ہو کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کرنے والے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا۔ وہاں کی کھوکھر برادری بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان کے مطابق اس حلقے سے بلاول بھٹو کامیاب ہوں گے کیونکہ یہاں جو کچی آبادی ہے انہیں مالکانہ حقوق ذوالفقار علی بھٹو نے دیے تھے۔
کچی آبادی کے مکین بلاول بھٹو کو بھر پور ویلکم کر رہے ہیں اور 8 فروری کو تیر ہی جیتے گا کیونکہ اب تحریک انصاف کے نشان بلے کی وجہ سے ووٹر کے لیے مشکل ہوگا کہ کس کو ووٹ دیں کیونکہ بہت سے آزاد امیدوار اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں تو ہمیں امید ہے کہ بلے کا ووٹر بھی تیر پر ٹھپا لگائے گا۔ بلاول بھٹو جلد یہاں پر ایک بڑا جلسہ بھی کریں گے۔
عطا تارڑ کا پہلا الیکشن لیکن جتنے کے چانس کتنے ہیں؟
عطا تارڑ پہلی دفعہ الیکشن لڑنے جارہے ہیں ویسے ان کے بھائی بلال تارڑ گوجرانولہ سے دوسری دفعہ صوبائی سیٹ پر الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ 2018 میں عطا تارڑ کے بھائی بلال تارڑ وہاں سے کامیاب ہوگئے تھے۔ اس وقت عطاتارڑ این اے 127 میں ہر روز کمپین کر رہے ہیں ہر ووٹر کے پاس جارہے ہیں یہاں پر پاسٹر انور فضل نے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے
این اے 127 میں جو مسلم لیگی ورکز ہیں انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ بلاول بھٹو بھی اس حلقے میں پہلی دفعہ لڑ رہے ہیں اور عطا تارڑ بھی دونوں کا مقابلہ بھرپور ہوگا لیکن پارٹی کی طرف سے عطا تارڑ کو وہ سپورٹ نہیں مل رہی جو اس حلقے میں انہیں ملنی چاہیے کیونکہ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، اس سے کافی فرق پڑتا ہے۔
لوگوں نے بتایا کہ یہاں پر شائستہ پرویز ملک کا کافی ووٹ بینک ہے جو اس حلقے میں عطا تارڑ کے لیے کمپین نہیں کر رہیں، پارٹی کو چاہئیے کہ انہیں حلقے میں کمپین کے لیے لائیں، اسی طرح سیف الملوک کھوکر کا بھی اس حلقے میں ووٹ بینک ہے وہ عطا تارڑ کو تو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن کیونکہ وہ خود بھی ایم این اے کا الیکشن لڑ رہے ہیں انکا بیٹا فیصل کھوکر بھی ایم پی اے کا الیکشن لڑا رہا ہے اس لیے وہ زیادہ توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔
لیگی ورکرز نے بتایا کہ نواز شریف کا تو ووٹ بینک ہے لیکن لوگ کچھ مایوس بھی ہیں، تاہم اگر کوئی جیتا بھی تو تھوڑے مارجن سے جیتے گا زیادہ ووٹوں کا فرق نہیں ہوگا۔ مختلف برداریوں نے عطا تارڑ کو ووٹ دینے کی یقین دہانی تو کروائی ہے لیکن اہل حلقہ کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پیسوں سے ووٹ خرید رہی ہے۔ عطا تارڑ میں پیسے خرچ کرنے کی سکت نہیں ہے، پارٹی کو مد نظر رکھنا ہوگا اور عطا تارڑ کی مالی سپورٹ کرنا ہوگی ورنہ الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔