الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے خلاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے اور پارٹی کارکنان کی جانب سے شکایات موصول ہونے پر پی ٹی آئی کی بطور پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ کر دی تھی اور بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی نشان بلے کے حصول کے لیے پہلے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا تھا جس پر انٹراکورٹ اپیل ہوئی تو فیصلہ پھر بحال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے پھر رجوع کیا تو 9 جنوری کو پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا اور پی ٹی آئی کو بلے کا نشان الاٹ کرنے کا حکم جاری کیا۔
Related Posts
اس کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کا حکم دیا جس کے فوری بعد متعلقہ ریٹرننگ افسران نے ملک بھر میں پی ٹی آئی امیدواروں کو عجیب و غریب انتخابی نشانات الاٹ کر دیے۔
پی ٹی آئی امیدواروں کو بوٹ، بوتل، ویل چیئر، لیپ ٹاپ، بکری، کُھسّہ، توا، زبان، سبز مرچ، باجا، فرائی پین اور بینگن جیسے نشان الاٹ کیے گئے ہیں جبکہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کو چینک کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا۔ ان نشانات پر پی ٹی ائی امیدواروں کو تحفظات ہیں جبکہ ان کا کہنا ہے کہ ایسے نشانات سے ہم کیسے انتخابی مہم چلائیں گے؟
وی نیوز نے الیکشن کمیشن سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پی ٹی آئی امیدواروں کو ملنے والے انتخابی نشان اب تبدیل ہو سکتے ہیں؟
انتخابی نشان تبدیل کرانے کے لیے ٹھوس جواز ہونا ضروری ہے، کنور دلشاد
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن قوانین کے مطابق اگر کوئی امیدوار کسی مخصوص نشان کے لیے درخواست نہیں دیتا یا ایسے نشان کی درخواست دے جو کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں نہ ہو تو ریٹرننگ آفیسر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی فہرست میں درج کسی بھی دستیاب نشان کو اس متعلقہ امیدوار کو الاٹ کر دے۔
کنور دلشاد نے کہاکہ الیکشن قوانین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے الاٹ کیا گیا انتخابی نشان تبدیل کر سکے، لیکن اس میں ابھی زیادہ وقت رہتا نہیں ہے، اگر 2 روز کے اندر اندر پی ٹی آئی امیدوار یا ایسا کوئی بھی امیدوار جو اپنا انتخابی نشان تبدیل کرنا چاہتا ہے وہ چیف الیکشن کمشنر کو درخواست کرے اور وہ اُس کے موقف سے مطمئن ہوں تو انتخابی نشان تبدیل ہو سکتا ہے، تاہم انتخابی نشان تبدیل کرانے کے لیے کوئی جواز ہونا ضروری ہے۔
انتخابی نشانات کی تبدیلی ممکن مگر پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواستیں منظور ہوتی نظر نہیں آ رہی، شاہد کمال
سینیئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شاہد کمال نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن قوانین کے مطابق بیلٹ پیپر کی چھپائی سے قبل الیکشن کمیشن کسی بھی امیدوار کو الاٹ کیے گئے انتخابی نشان کو امیدوار کی درخواست پر تبدیل کر سکتا ہے، اگر پی ٹی آئی امیدوار اپنے انتخابی نشان کی تبدیلی کی درخواست دیں تو 2 روز میں یہ نشان تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن ابھی جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواستیں منظور ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
شاہد کمال نے کہاکہ اگر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی امیدواروں کو ریٹرننگ افسران کی جانب سے الاٹ کیے گئے نشانات کو بحال کرتا ہے تو پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس اور کوئی آپشن موجود نہیں، وہ انہی نشانوں پر الیکشن لڑیں گے۔ الیکشن کمیشن ریٹرننگ آفیسر کو بھی تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، نشان تبدیل کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
کِس امیدوار کو کون سا نشان الاٹ کیا گیا؟
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 10 بونیر سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرخان کو چینک، این اے 151 ملتان سے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور این اے 46 سے ایڈووکیٹ شعیب شاہین کو جوتا، این اے 19 صوابی سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو وہیل چیئر، جبکہ حلقہ این اے 35 کوہاٹ سے شہریار آفریدی کو بوتل کے نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کرک کے حلقہ این اے 38 سے امیدوار شاہد خٹک اور چکوال سے ایاز امیر کو باجا، پرویزالہیٰ کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کو فریج، این اے 122لاہور سے سردار لطیف کھوسہ کو انگریزی کا حرف K، نواز شریف کے مقابلے میں این اے 130 لاہور پر ڈاکٹر یاسمین راشد کو لیپ ٹاپ کا نشان دیا گیا ہے۔
این اے 236 سے عالمگیر خان کو بینگن، این اے 150ملتان سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کو چمٹا، این اے 241 پر خرم شیر زمان کے لیے ڈھول، این اے 234 پر فہیم خان کو بوتل کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔