الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ اگر انتخابی نشانات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا تو الیکشن میں تاخیر کا خدشہ ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابی نشانات کی تبدیلی کی صورت میں ہمیں بیلٹ پیپرز دوبارہ پرنٹ کرانا پڑیں گے اور وقت پہلے ہی محدود ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اسپیشل کاغذ بیلٹ پیپرز کے لیے مہیا کیا ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق تینوں پرنٹنگ کارپویشنز کو بیلٹ پیپرز چھاپنے کا آرڈر دے چکے ہیں اور چھپائی کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس بار 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھپوائے جا رہے ہیں، انتخابی نشانات تبدیل کرنے کا سلسلہ نہ رکا تو ایسے حلقوں میں الیکشن ملتوی کرنا پڑیں گے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کے آزاد ہو جانے والے امیدواروں کو مختلف انتخابی نشانات الاٹ کیے ہیں۔
پی ٹی آئی کا اعتراض ہے ان کے امیدواروں کو عجیب و غریب انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے نئے نشانات کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
کِس امیدوار کو کون سا نشان الاٹ کیا گیا؟
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 10 بونیر سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرخان کو چینک، این اے 151 ملتان سے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور این اے 46 سے ایڈووکیٹ شعیب شاہین کو جوتا، این اے 19 صوابی سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو وہیل چیئر، جبکہ حلقہ این اے 35 کوہاٹ سے شہریار آفریدی کو بوتل کے نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کرک کے حلقہ این اے 38 سے امیدوار شاہد خٹک اور چکوال سے ایاز امیر کو باجا، پرویزالہیٰ کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کو فریج، این اے 122لاہور سے سردار لطیف کھوسہ کو انگریزی کا حرف K، نواز شریف کے مقابلے میں این اے 130 لاہور پر ڈاکٹر یاسمین راشد کو لیپ ٹاپ کا نشان دیا گیا ہے۔
این اے 236 سے عالمگیر خان کو بینگن، این اے 150ملتان سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کو چمٹا، این اے 241 پر خرم شیر زمان کے لیے ڈھول، این اے 234 پر فہیم خان کو بوتل کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔