ٹامی سے منٹو تک

جمعرات 18 جنوری 2024
author image

ڈاکٹر احمر سہیل بسرا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آہ ۔۔۔ منٹو ۔۔۔

بات کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔

سب کچھ بہت سیدھا سادہ اور فطری  رَو میں چل رہا تھا۔ امرت سر کے  کوچۂِ وکیلاں سے لیکر مسلم ہائی سکول شریف پورہ ۔۔۔ اور پھر۔۔۔ امرت سر ہی کے کوچۂِ وکیلاں سے لیکر ہندو سبھا کالج تک ۔۔۔اس سب سے پہلے وہ، اٹھارویں صدی میں کشمیر سے آئے خاندان کے ایک فرد خواجہ غلام حسن کے گھر، اس کی دوسری بیوی میں سے پیدا ہو چکا تھا۔ شربتی آنکھوں والا کشمیری بچہ۔ نام سعادت حسن رکھ دیا گیا۔ دوسرے بچوں کی طرح، یہ بچہ بھی روز مرہ کی خوراک کھاتا، کھیل کود میں مگن رہتا، اور سکول چلا جاتا۔

عمر کے جس حصے میں داخل ہوتا، عمر  کے اس حصے سے بندھی مصروفیات اور کھیل تماشوں میں وقت گزارتا۔ مزے لیتا، ایک معتدل طالب علم، ایک معتدل بچہ۔ سکول میں شرارتیں کرتا۔۔۔ اِس کی ٹانگ ۔۔۔ اُس کا بستہ ۔۔۔ اِ س کو چھیڑ ۔۔۔ اُس کو چھاڑ ۔۔۔ گھر آکر ماجھے لگا ۔۔۔ چھت پر جا چڑھ گُڈیاں اُڑا ۔۔۔ پیچ لڑا ۔۔۔ کانٹیاں ڈال۔۔۔ اور بو کاٹا کے جیکارے بلند کر۔۔۔ اور کبھی تُنکے مارتے، چھت سے گِر۔۔۔ پِنڈے پر چوٹ لگوا۔۔۔ پھر تیار ہو جا اگلے پیچ کے لئے۔۔۔

سکول میں کبھی فیل ہوتا، کبھی پاس ہوتا۔ زندگی کے مزے لیتا۔ لا اُبالی پن کا حِظ اٹھاتا ۔۔۔ یاروں دوستوں اور گھر والوں کا  ’’ٹامی‘‘۔۔۔ کالج پہنچ گیا۔۔۔

عمر بدلی ۔۔۔ مسّیں بھیگیں ۔۔۔ آواز پھٹی ۔۔۔ اور شوق بدلے۔

فلموں کو آواز ملی ۔۔۔ انگریزی فلموں کی آمد ہوئی ۔۔۔ مہنا سنگھ کے بنائے نئے نویلے چترا ٹاکیز میں فلمیں دیکھنا شروع کر دیں۔ فلمی رسالوں اور انگریزی ہیروئینوں کی تصویروں سے  اس کا کمرہ بھر گیا۔ وہی کمرہ جو اس کے گھر کے مغربی دروازے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔ مشرقی دروازے کے اندر ڈیوڑھی کے داہنے ہاتھ تھا ۔۔۔ کہ نام جس کا اس نے ’’دارالاحمر‘‘ رکھا ہوا تھا ۔۔۔  جس میں  جانبِ شِمال لکھنے کی میز ۔۔۔ اس کے بائیں  ہاتھ ایک آتشدان ۔۔۔ اور آتشدان کے اوپر بھگت سنگھ کی مورتی ۔۔۔ ایک کیروسین آئل سے جلنے والا لیمپ ۔۔۔ اور دِوار پر  مارلین ڈِیٹرِک اورگرَیٹا گاربو کے پوسٹر ۔۔۔

مطلب سبھی کچھ ویسا ہی تھا کہ  جیسا سبھی کچھ ہونا چاہئے تھا ۔۔۔ اور بات کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔ ملک پر انگریز کی حکومت تھی ۔۔۔ کہ جو تھی کوئی سو ڈیڑھ سو سال سے ۔۔۔ خاندان کشمیر سے آ چکا تھا کہ جو آ چکا تھا کوئی سو ڈیڑھ سو سال پہلے ۔۔۔ گھر میں تب تک فراوانی تھی ۔۔۔ کشائش  تھی ۔۔۔  نسل پشتوں سے تاجر تھی۔۔۔ اور خاندان کے بیشتر مرد وکیل تھے یا منصف ۔۔۔ مطلب گھر میں۔۔۔ خاندان میں ۔۔۔ نسل میں ۔۔۔ سر پھری کے کوئی  آثار ۔۔۔ جراثیم ۔۔۔ جینز  نہیں تھے ۔۔۔ یا شاید ہوں جن کا مجھے علم نہیں ہوسکا ۔۔۔

مطلب  بادی النظر میں ۔۔۔بات کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔

لیکن ہوا کچھ یوں کہ امرت سر کے کوچۂِ وکیلاں میں بستے کشمیریوں کا خوبرو بانکا ۔۔۔ عنفوانِ شباب  و وسطِ معصومیت میں ہی باری علیگ کے بردبار و متین فلسفیانہ و انقلابی ہتھے چڑھ گیا تھا ۔۔۔  جی ہاں ۔۔۔ وہی باری علیگ جو کنَّور گورداس پور میں پیدا ہو ۔۔۔۔ لائل پور میں پڑھ ۔۔۔  لاہور میں صحافت کر ۔۔۔امرت سر آ بسا تھا ۔۔۔  چونکہ علی گڑھ یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل تھا ۔۔۔ علیگ کہلایا ۔۔۔ تحریکِ کارل مارکس سے حد درجہ متاثر ۔۔۔ معاشی و معاشرتی و سماجی نا ہمواری و عدم مساوات سے نالاں ۔۔۔ استعماریت اور سرمایہ دارانہ نظام سے بر گشتہ ۔۔۔ صرف تیس اکتیس سال کی عمر میں ہی بر صغیر پر انگریزوں کی حکومت بارے ایک معرکۃالآرا کتاب لکھ ماری جس کا نام ‘کمپنی کی حکومت’ رکھا۔ اور اپنے عہد کا یہ بڑا آدمی ۔۔۔  صرف 43 برس زندہ رہا ۔۔۔ لیکن مرنے سے پہلے  ۔۔۔ کشمیریوں کے ٹامی کو  بال پنے ہی میں ۔۔۔ مارلین، جون کرافورڈ  اور گاربو کی  توبہ شکن ’ساختیات‘ اور دل فریب اداؤ ں سے رہائی دلوا کر ۔۔۔ روسو، والٹئر، ہیگل، لینن، اینگلز، اور مارکس کے فلسفیانہ  چنگل میں پھنسا گیا۔

کوچۂِ وکیلاں سے مسلم ہائی سکول  اور ہندو سبھا کالج کے درمیان کھیلتا، کودتا، پڑھتا، شرارتیں کرتا ۔۔۔ چُلبلا و چنچل ٹامی دنوں میں سنجیدہ و بردبار ہو گیا تھا۔

ہنسنے کھیلنے والا ٹامی اب آنکھوں میں آنسو ۔۔۔ دل میں آگ ۔۔۔ اور سینے میں چنگاریاں لئے پھرتا۔ ابھی عمر ہی کیا تھی جب  باری علیگ کے کہنے پر فرانسیسی و روسی انقلابی ادب پڑھ گیا۔ 1933/34 میں جب  ہیوگو کے فرانسیسی ناول’ بد دعائے ہوئے کا آخری دن‘ اور آسکر وائلڈ کے ’ویرا‘ کا اردو میں ترجمہ کیا تو  عمر یہی کوئی 22 کی رہی ہو گی۔

بس پھر کیا تھا ۔۔۔ اک آگ کا دریا تھا ۔۔۔ اور ٹامی اس میں تیر رہا تھا۔ لیکن ٹھہرئیے ۔۔۔ اب وہ ٹامی کہاں رہا تھا۔ اب وہ منٹو بن گیا تھا۔ بیس بائیس کے سال میں ہی اس نے اپنے آبائی  کشمیری خاندانی نام ‘منٹو’ کو ایک نئی پہچان دے دی تھی۔  لفظ منٹو کے سارے  تاریخی و حقیقی مطالب و معانی و حوالہ جات پسِ منظر میں چلے گئے تھے ۔۔۔ غائب ہو گئے تھے ۔۔۔ ختم ہو گئے تھے۔ اب  لفظ منٹو ایک استعارہ بن گیا تھا ۔۔۔ حساسیت کا ۔۔۔ رنج کا ۔۔۔  اداسی کا ۔۔۔ تلخی کا ۔۔۔ احتجاج کا ۔۔۔ معاشرے میں پھیلی نا ہمواری و بے ترتیبی کا ۔۔۔ ظلم کے خلاف کڑھنے کا ۔۔۔ ذیادتی بارے  آوازِ بلند کرنے کا ۔۔۔دِلوں میں دب جانے والی نا آسودہ  خواہشات کا ۔۔۔ دِلوں میں جنم لینے والے فطری  جذبات اور انکے اظہار کا ۔۔۔  روایت کے نام پر سڑی ہوئی غلاظت کو آشکار کرنے کا ۔۔۔ مذہب کے نام پر ہو رہے استبداد   کا راز فاش کر دینے کا ۔۔۔ اخلاقیات کے نام پر منافقت کی چادر کو تار تار کر دینے کا ۔۔۔اور اردو ادب کے سب سے بڑے ۔۔۔ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے  والے  افسانہ نگار کا۔

ایک ایسا لکھاری جسے سب نے پڑھا ۔۔۔ کسی نے چُھپ کر ۔۔۔ کسی نے سرِعام ۔۔۔ کسی نے تعریف کرنے کے لیے ۔۔۔ کسی نے گالیاں نکالنے کے بہانے ۔۔۔ کسی نے حمایت کرنے کے لیے ۔۔۔تو کسی نے مخالفت کرنے کے بہانے ۔۔۔ کسی نے اصلاحِ سماج کے لیے ۔۔۔تو کسی نے ‘معاشرہ بگاڑ تحریر’ کا الزام دھرنے کے لیے ۔۔۔ کسی نے مخالفت میں فیصلہ دینے کے لیے تو کسی نے خالی جرمانہ کر کے چھوڑ دینے کے لیے ۔۔۔ کسی نے اپنے جریدے میں چھاپنے کا  خطرہ مول لینے کے لیے ۔۔۔ تو کسی نے  اپنے رسالے میں نہ چھاپنے کے لیے۔

مطلب ۔۔۔ منٹو کو سب  نے پڑھا ۔۔۔ اور جو کہتے ہیں نہیں پڑھا ۔۔۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔

منٹو نے اکثر کو مایوس کیا ۔۔۔ وہ اس طرح کے سنا تھا منٹو فُحش لکھتا ہے۔ مطلب گندی باتیں ۔۔۔ مطلب مرد و زن کے اختلاط کی باتیں ۔۔۔ مطلب لذتِ بوس و کنار کی باتیں ۔۔۔  مطلب جنسی تعلقات کی سرِ عام باتیں ۔۔۔ مطلب  سلگتے جذبات اور بہکتے جسم و جاں کی باتیں۔ لیکن جب اس کے لکھے میں داخل ہوئے تو وہاں توایسا کچھ نہیں تھا۔ وہاں تو  ممبئی میں ہونے والے انسانیت سوز دنگے تھے ۔۔۔ لاشیں گر رہی تھیں ۔۔۔ قتل ہو رہے تھے ۔۔۔  انسان انسان کو مار رہا تھا ۔۔۔ لہو بہہ رہا تھا ۔۔۔ عصمتیں لٹ رہی تھیں ۔۔۔ اور ایک یہودن موذیل ۔۔۔ ایک سکھ ترلوچن اور اس کی محبوبہ کو  بچاتے ہوئے ۔۔۔ خود مر رہی تھی۔

وہاں تو انبالے سے نکلی یا نکالی گئی ۔۔۔ اچھے دنوں کی امید میں ۔۔۔ خدا بخش کی باتوں میں آ کر دلی آ بسنے والی  معصوم سی سلطانہ تھی  ۔۔۔ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شاطر شنکر تھا ۔۔۔ جو  کسی کی خواہشِ جھمکہ کو ۔۔۔ کسی کی ضرورتِ کالی شلوار سے پورا کرتے ۔۔۔ اپنا الو سیدھا کر رہا تھا۔

وہاں تو ۔۔۔ آنکھوں میں  انقلاب کے خواب سجائے ۔۔۔ نیا قانون لاگو ہونے پر ۔۔۔ ان خوابوں کی تعبیر پر اندھا یقین رکھتا منگو کوچوان تھا ۔۔۔ جس کے  خوابوں کے ٹوٹنے کی آواز پر کوئی زلزلہ آیا ۔۔۔ نہ ہی کوئی قیامت۔

وہاں تو  ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ تھا جو پاگل خانے میں ہر شخص سے اپنے گھر کا پتہ پوچھتا  پھرتا۔ وہاں تو ایشر سنگھ سے ملاقات ہو جاتی ہے ۔۔۔ جو کلونت کور کو ۔۔۔ ایک لاش کے ساتھ ہو جانے والی اپنی محبت کی کہانی سنا رہا ہوتا ہے۔

وہاں لاہور کے مہاجر کیمپ میں اپنی بیٹی کو تلاش کرتا سراج الدین مل جاتا ہے ۔۔۔  وہ بیٹی۔۔۔ جس کی عمر 17 سال تھی ۔۔۔ جس کا گورا رنگ تھا ۔۔۔ اور جس کے  بال سیاہ اور آنکھیں کالی کالی تھیں ۔۔۔ اور جس کے داہنے گال پر بڑا سا سیاہ تل تھا ۔۔۔ اور جس کی جب لاش میں زندگی کی حرکت ہوتی ہے تو بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلاتا ہے، ’’زندہ ہے۔۔۔ میری بیٹی زندہ ہے۔۔۔‘‘ اور ساتھ کھڑا ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو جاتا ہے۔

آپ  گویا تلذُّذ کے لئے منٹو کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن آنکھوں میں اذیت بھرے آنسو لیکر باہر نکل آتے ہیں۔ مطلب منٹو کی تحریروں میں سوائے دکھ ۔۔۔ تکلیف ۔۔۔ اور درد کے کچھ نہیں تھا ۔۔۔ اور ان سبھوں کو اپنے غلاف میں لئے ہوئے حقیقت تھی ۔۔۔ تلخ اور ننگی حقیقت ۔۔۔ اور معاشرے کے ٹھیکیداروں نے اس غریب کے خلاف نالشیں کر کر اسے معاشرے سے بالکل ہی مایوس کر دیا۔

عہدِ وکٹوریہ کی مذہبی، اخلاقی، اور جنسی منافقتوں کا پردہ چاک کرنے والے مشہور انگریزی شاعر، افسانہ و ناول نگار اور منٹو کے ہم عصر ٹامس ہارڈی سے ایک  بار کسی نے کہا کہ وہ مایوسی پھیلانے والا لکھاری ہے۔ ہارڈی نے جواب دیا کہ نہیں ۔۔۔ وہ مایوسی پھیلانے والا لکھاری نہیں ہے ۔۔۔ جب ہر طرف جنگ سے متاثرہ انسانیت کی لاش تعفن پھیلا رہی ہو ۔۔۔ ہسپتالوں میں بچ جانے والوں کا مقدر لولی اور لنگڑی زندگی ہو ۔۔۔ گلیوں میں بے روز گاری ناچ رہی ہو ۔۔۔ اور گھروں میں بھوک تو پھر وہ دل کش و دلفریب و خواب آسا تحریریں کہاں سے لے کر آئے ۔۔۔ اُس نے خود کو حقیقت پسند لکھاری کہلوانا پسند کیا ۔۔۔ اور ایسا ہی منٹو کے ساتھ بھی تھا۔ اس کا قصور یہ کہ راست گو ہوتے ہوئے بھی بدتہذیب نہیں تھا ۔۔۔ حقیقت پسند تھا ۔۔۔ منافق نہیں تھا۔

اپنی تحریروں کے سلگتے ہوئے مواد کے باوجود ۔۔۔ منٹو کی تحریروں کے متن کا اسلوب حیران کن حد تک متنوُّع، تخلیقی اور ادبی تھا۔ ماحول، حقیقت اور کردار کی نفسیات اور اس کے سماجی و معاشی و معاشرتی پس منظر کے مطابق ان کی جزئیات کو بہت خوب صورت اور سہل انداز میں بیان کرتا تھا۔

یہاں پر بس ایک افسانے کا ذکر کروں گا ۔۔۔ اور اس کے اسلوب کا ۔۔۔جو ایک خبر پر لکھا گیا تھا ۔۔۔

افسانے کا نام ہے ۔۔۔ ’سڑک کے کنارے‘

“یہی دن تھے، آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا، اور دھوپ بھی ایسی ہی گنگنی تھی۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی  تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے۔

یہی دن تھے۔۔۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے۔۔۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟”

آہ منٹو ۔۔۔

11 مئی 1912 ۔۔۔ اور 18 جنوری 1955 کے بیچ  کے  43 سال ۔۔۔ دونوں معلوم  حدوں کے  بیچ کا وقت محدود ۔۔۔ مگر اس محدود وقت کے شاخسانے کتنے لا محدود۔۔۔

1933 سے لیکر  مرنے تک ۔۔۔ 22 سال ۔۔۔ لیکن ان 22 سالوں میں سینکڑوں افسانے ۔۔۔ کہانیاں ۔۔۔ ڈرامے ۔۔۔ مکالمے ۔۔۔ فلمیں ۔۔۔ شخصی خاکے ۔۔۔

کہتے تھے منٹو بہت لکھتا ہے ۔۔۔ بسیار نویس ہے۔ لیکن کیا کرتا نہ لکھتا اتنا تو ۔۔۔ گھر نہیں پالنا تھا کیا ۔۔۔ وہ جو اس کے ساتھ جڑے تھے ۔۔۔ بیوی صفیہ اور نصرت، نگہت، اور نذہت نام کی بچیاں ۔۔۔ کسی  تحریر کے 25 ۔۔۔ کسی کے 20 رُپے ۔۔۔ اور کسی کا کچھ بھی نہیں جُز وعدے اور لارے کے ۔۔۔ تو کیا کرتا اتنا نہ لکھتا تو!!

لیکن ایمانداری سے کہیے گا ۔۔۔ کیا اسکا ہر لکھا اپنی جگہ ایک فن پارہ نہیں تھا؟ کیا اس کے ہر لکھے نے آپ کی روح کو ہلایا نہیں؟ جسم و جاں کو تڑپایا نہیں؟ سوئی ہوئی سوچ کو جھنجھوڑا کہ نہیں؟ احساس کے جُثے پر تازیانہ پڑا یا نہیں؟ سوچ کے ہزاروں در وا کیے کہ نہیں؟

بات کچھ بھی نہیں تھی۔۔۔

سب کچھ بہت سیدھا ۔۔۔ سادہ ۔۔۔ اور فطری  رَو میں چل رہا تھا۔ امرت سر کے  کوچۂِ وکیلاں سے لیکر مسلم ہائی سکول شریف پورہ ۔۔۔ اور پھر۔۔۔ امرت سر ہی کے کوچۂِ وکیلاں سے لیکر ہندو سبھا کالج تک ۔۔۔ 1912  لیکر ۔۔۔ 1955 تک ۔۔۔ امرت سر سے لیکر لاہور تک۔۔۔

لیکن ان 43 سالوں کے اخیر پر ۔۔۔ اخیر ہوگئی تھی۔ امرت سر میں آ بسے کشمیریوں کا سعادت حسن ۔۔۔ ساتھیوں سنگیوں کا ٹامی ۔۔۔  انوکھا ۔۔۔ البیلا ۔۔۔ سبھوں سے الگ ۔۔۔ سبھوں سے جُدا ۔۔۔ سب سے ذیادہ پڑھا ۔۔۔ اور چاہا جانے والا ۔۔۔اردو ادب پر سب سے گہرے ۔۔۔ خوبصورت ۔۔۔ یاد گار ۔۔۔ اور ان مٹ نقش چھوڑ جانے والا منٹو ۔۔۔ جسے سب سے ذیادہ تکلیف ۔۔۔ اور دکھ اور اذیت دی گئی ۔۔۔ دیال سنگھ مینشن لاہور میں خون تھوکتا ۔۔۔ اس دنیائے بد رنگ و بد بو سے رخصت ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان سکردو میں بطور اسٹیشن ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، نسٹ اسلام آباد اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت جیسے اداروں میں پڑھا چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp