سائنسدانوں نے آسٹریلیا کے شمالی ساحل کے قریب ایک طویل گمشدہ براعظم کے شواہد دریافت کیے ہیں جہاں تقریباً 70 ہزار سال قبل 5 لاکھ انسان اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔
اس براعظم کو نارتھ ویسٹ شیلف کہا جاتا ہے، اس میں جھیلیں، دریا، جزیرہ نما علاقے اور ایک بڑا سمندر شامل ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق یہ براعظم برطانیہ کے کل رقبہ سے تقریباً 1.6 گنا بڑا تھا۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس براعظم میں جزیرے بہت وسیع تھے جنہیں قدیم انسانوں نے انڈونیشیا سے آسٹریلیا کی طرف ہجرت کرنے کے لیے استعمال کیا۔ مگر تقریباً 10 ہزار سال پہلے سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے یہ جزیرہ بحیرہ تیمور میں 300 فٹ نیچے ڈوب گیا تھا۔
آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ کاسیہ نارمن اور ان کے ساتھیوں نے ایک نئی تحقیق کی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کی ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا کے شمال مغربی شیلف پر پیچیدہ لینڈ اسکیپ دریافت کیا ہے جو ہمارے براعظم پر پائے جانے والے کسی بھی خطے سے مختلف ہے۔
دنیا میں برفانی دور کا خاتمہ تقریباً 18 ہزار سال پہلے ہوا اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سطح سمندر میں بھی اضافہ ہوا اور براعظموں کے بڑے حصے زیر آب آگئے، ان میں وہ بڑا زمینی حصہ بھی شامل تھا جو آسٹریلیا کو گھیرے ہوئے تھا۔
یہ براعظم، جو آسٹریلیا کی سرزمین سے نیو گنی اور تسمانیہ میں شامل ہو کر تشکیل پاتا ہے، آج کے دور میں ساہول کہلاتا ہے، جب سطح سمندر میں اضافہ ہوا تو یہ جزوی طور پر ڈوب گیا تھا۔ اس عمل نے تسمانیہ کو زمین علاقوں سے الگ اور براعظم ساہول کو آسٹریلیا اور نیو گنی میں تقسیم کر دیا تھا۔
محققین کے مطابق، ساہول کا نارتھ ویسٹ شیلف خاص طور پر ایک وسیع، قابل رہائش اور ایک مشترک ثقافت والا علاقہ تھا جس میں زبانوں، پتھروں سے بنائے گئے نمونے اور ہتھیاروں میں پائی جانے والی خصوصیات مشترک تھیں۔