ایودھیا میں متنازع رام مندر کے افتتاح پر بھارتی مورخ کا انتباہ

جمعہ 19 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

معروف بھارتی مورخ اور سیاسی مبصر رام چندر گوہا نے خبردار کیا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کے ارد گرد تماشے سے ان ہندوستانی شہریوں کو فکر مند ہونا چاہیے جو جمہوریت اور تکثیریت پر یقین رکھتے ہیں۔

ہندوستان میں بڑھتے ہوئے ’ہندو فکشن پر مبنی سیاسی گفتگو‘ سے جڑے معاملات پر اظہارخیال کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس ’سیاسی تماشے‘ کا سائزاور پیمانہ احساس برتری سے لبریز ہے جس میں متنازع مندر ’ہندو ازم کی بالادستی کی یادگار‘ کے طور پر نمودار ہوا ہے۔

22 جنوری کو ایودھیا میں زیر تعمیر متنازع رام مندر کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں متوقع افتتاح کے ضمن میں رام چندر گوہا نے کہا کہ بابری مسجد مذہبی اورفوجی فتح کی علامت تھی جبکہ نیا مندر مذہبی فتح کی علامت ہو گا۔

’یہ اس بات کی علامت ہے کہ بھارت ایک ہندو کو فوقیت اور ترجیح دینے والا ملک بنتا جا رہا ہے … رام مندر کے منصوبے میں ریاست کی شمولیت اس خیال کو مزید تقویت دیتی ہے کہ ہندوستان سب سے بڑھ کرایک ہندو ملک ہے۔‘

دی وائر کے لیے معروف بھارتی صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک 35 منٹ کے انٹرویو میں، رام چند گوہا نے واضح طور پر ہندوستان کو اسی غالب اکثریتی راستے پر رواں ہونے سے خبردار کیا ہے، جس نے سری لنکا کو برباد کرکے رکھ دیا، جہاں سنہالا بدھ مت کے ماننے والوں نے تامل ہندوؤں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی۔

رام چندر گوہا کے مطابق متنازع رام مندر کے منصوبے میں ریاست کی شمولیت اس خیال کو مزید تقویت دیتی ہے کہ ہندوستان سب سے بڑھ کر ایک ہندو ملک ہے۔ (فائل فوٹو)

رام چندر گوہا نے انٹرویو کا آغاز ایک بہت ہی دلچسپ مشاہدے کے ساتھ کیا جس میں پچھلی چار دہائیوں میں ہندوستان میں ہونے والی سیاسی گفتگو میں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے، ان کے مطابق 1980 کی دہائی کے آخر میں، جب بھارتیہ جنتا پارٹی پہلی بار ہندوستانی سیاست میں ایک اہم طاقت بن رہی تھی، بی جے پی کے رہنما، لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ وہ مثبت سیکولرازم کے لیے کھڑے ہیں۔

’۔۔۔آزادی کے 40 سال بعد تک سیکولرازم کو برقرار رکھنا ایک آئیڈیل ہواکرتا تھا۔۔۔ تاہم اب بی جے پی یا کانگریس کا کوئی بھی بڑا سیاست دان عوامی طور پر سیکولرازم کا اعلان نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ سچے ہندوؤں کے طور پر پہچانے جانے کے خواہشمند ہیں۔‘

رام چندر گوہا کے مطابق یہ صرف قابل قبول گفتگو اور نظریے کی تبدیلی نہیں ہے جو 1980 کی دہائی کے اواخر سے رونما ہوئی ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے آپ کو پیش کرنے کے انداز میں بھی بہت نمایاں تبدیلی آئی ہے۔

متنازع رام مندر سے وابستہ ’سیاسی تماشے‘ کا سائزاور پیمانہ احساس برتری سے لبریز ہے، بھارتی مورخ اور مبصر رام چندر گوہا (فائل فوٹو)

’ایک وقت تھا کہ جب بی جے پی لیڈر کانگریس میں اپنے مخالفین سے بہتر سیکولر کے طور پر پہچانے جانے کے خواہاں تھے، اب، کانگریسی لیڈر بی جے پی میں اپنے مخالفین سے زیادہ عقیدت مند ہندو کے طور پر پہچانے جانا چاہتے ہیں۔‘

رام چندر گوہا نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بی جے پی اپنے آپ کو پیش کرنے کے انداز میں اس تبدیلی سے گزر چکی ہے، لیکن کانگریس ٹھوکر کھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، انہوں نے ہندوستان کا ایشیا کے کامیاب ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے ایک واضح فرق کی نشاندہی بھی کی۔

’ کامیاب ایشیائی ممالک جیسے جاپان، سنگاپور اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک بہت ہی واضح فرق ہے، مذکورہ تینوں ممالک میں سیاست اور عوامی زندگی میں مذہب کی موجودگی انتہائی خاموش ہے جبکہ بھارت میں اس کے برعکس ہوتا جا رہا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp