گرفتاری کے وقت شہباز شریف کا قافلہ ایئرپورٹ نہ پہنچنے کا ملال ہے: مریم نواز

بدھ 8 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ جولائی 2018 میں جب وہ اپنے والد سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ وطن واپس آئیں اور جب انہیں گرفتار کیا گیا تب شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگی قافلہ ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکا تھا جس کا ملال انہیں آج تک ہے۔

وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ وہ موقع تھا جب لوگ ووٹ کی عزت کے لیے باہر نکلے تھے مگر اس دن جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔

‘اس کی کیا وجہ ہے میں تو نہیں جانتی لیکن وہ ایک اچھی چیز نہیں ہوئی اور اس کا میرے دل میں آج تک ملال ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ویسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔’

یاد رہے کہ 13 جولائی 2018 کو لندن سے واپسی پر نواز شریف اور مریم نواز کو احتساب عدالت کے حکم پر ایون فیلڈ ریفرنس میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور اس دن لاہور میں مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کی قیادت میں ایک بڑی ریلی نکالی تھی جسے لاہور میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچنا تھا تاہم وہ قافلہ دونوں رہنماوں کی گرفتاری تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔

‘چیئرمین نیب کو وقت ملنا چاہیے’

نئے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کی تعیناتی میں ان کے کردار کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے اس لیے اس تعیناتی سے ان کا کوئی براہِ راست لینا دینا نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ نئے چیئرمین نیب کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی ساکھ بنا سکیں۔

‘میں کسی کو بریکٹ کرنا نہیں چاہتی جب تک کہ اس کی کارکردگی سامنے نہ آئے۔ میں کسی کو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہتی کہ وہ کسی خاص طبقے یا ادارے سے تعلق رکھتا ہو۔ ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرح ہر ادارے میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے لوگ بھی۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ ہر آنے والے کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ خود کو اور اپنی ساکھ کو مستحکم کرسکے۔ ایسا ہونے سے پہلے اسے تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے۔

وزیرِاعظم بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کیسے ہوں گے؟

اس سوال پر مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ بطور پاکستانی وہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج سمیت کسی بھی ادارے کو نشانہ نہیں بنانا چاہتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کا ادارہ محب وطن لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ ‘میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول گئی ہوں اور گلگت بلستان بھی گئی ہوں اور میں نے وہاں پر سپاہیوں اور ان کے جذبوں کو بھی دیکھا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم ووٹ کو عزت دو کی مہم چلا رہے تھے اور اس وقت کی جو اسٹیبلشمنٹ تھی ہم اس کے زیرِ عتاب تھے۔ لیکن اس کے باوجود میں خود آگے بڑھ کر ان کو سلام کرتی تھی جو وردی میں موجود سرحد پر کھڑے تھے اور شہادتیں دیتے ہیں۔ میں ان میں کچھ شہدا کے گھر بھی گئی اور ان کے بچوں سے ملی’۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ وہ پاک فوج کے جذبہ حب الوطنی کی بہت قدر کرتی ہیں۔ اس وقت سپاہیوں سے جو میری بات چیت ہوتی تھی تو وہ مجھے سلام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کی تقریروں کو سنتے ہیں اور سراہتے ہیں، یعنی ادارے میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں’۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’حکومتوں اور اداروں کے درمیان تعاون ہونا چاہیے اور اس کی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے اداروں کے بغیر اپنا حکومتی نظام یا ملک کے نظام کو نہیں چلا سکتی’۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام میں آگاہی آرہی ہے کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے تو اگر یہ ہم یقینی بنا لیں جس کی طرف ہم چل پڑے ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس سے مثالی صورتحال کوئی نہیں۔

‘آپ اپنا کام کریں، حکومت اپنا کام کرے، جو منتخب نمائندے ہیں انہیں پوری عزت دی جائے، ان کو پوری طرح طاقت دی جائے تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کارکردگی دکھا سکیں اور 5 سال کے لیے انتخابات ہوں اور عوام پر فیصلہ چھوڑدیا جائے۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کو غیر مستحکم کرنا، اس کے خلاف سازش کرنا بند ہوجانا چاہیے جو 2013 سے 2022 تک ہوا ہے۔’

‘مسنگ پرسنز کا سلسلہ جڑ سے ختم ہونا چاہیے’

بلوچستان کے لاپتہ افراد سے ملاقاتوں میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں بہت کمی آئی ہے مگر یہ سلسلہ جڑ سے ختم ہونا چاہیے۔

‘میں ذاتی طور پر ان چند افراد سے رابطے میں تھی جو مجھے کوئٹہ میں ملے تھے۔ کسی کی بہن تھی اور کسی کی بیٹی۔ میں ان سے رابطے میں تھی۔ انہوں نے پھر مجھے فون کرکے کہا کہ چند سال لگے مگر کچھ لوگ تو گھر پہنچ گئے تھے اور یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس چیز کو جڑ سے ختم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے یا کوئی کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہے تو اس کے خاندان کو بھی اطلاع ہونی چاہیے۔’

‘عمران خان کے بیانیے کی بنیاد جھوٹ ہے’

وی نیوز نے مریم نواز سے پوچھا کہ عمران خان صاحب کا بیانیہ کافی حد تک لوگوں میں سرایت کرچکا ہے اور کیا مسلم لیگ (ن) پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے تو مریم نواز کا کہنا تھا کہ جہاں جھوٹ کا نام بیانیہ ہو اس بیانیے کو زمیں بوس ہوتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔

‘آپ نے دیکھا کہ ایک سائفر سے شروع ہونے والے بیانیے کا کیا ہوا؟ امریکا نے ہماری حکومت ختم کردی اور امپورٹڈ حکومت آگئی اور امریکا نے ہمارے خلاف سازش کردی۔ ڈونلڈ لو نے یہ کردیا، سائفر آگیا، اب آپ دیکھیں کہاں ہے وہ بیانیہ؟ اس بیانیے کے پرخچے خود انہوں نے اڑادیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ یہ بیانیہ بنانے والوں نے تو امریکا سے معافی مانگ لی اور نہ صرف معافی مانگی بلکہ یہ کہا کہ امریکا نے سازش نہیں کی ہمارے خلاف۔ حالانکہ اس امریکی سازش کے بیانیے پر انہوں نے قومی اسمبلی توڑ دی تھی۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اب ناصرف اس بیانیے سے یوٹرن لے لیا بلکہ ان کے پاؤں میں بھی گر گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی بھی سوچتے ہوں گے کہ عمران خان کس قسم کے انسان ہو یا پاکستان کس قسم کا ملک ہے کیونکہ کچھ بھی ہو آپ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہو اور پاکستانی شہری ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) واحد جماعت ہے جو انتخابات کی تیاری کے لیے میدان میں موجود ہے۔ ’ابھی کسی اور جماعت نے انتخابات کی تیاری نہیں کی۔ باقی جماعتوں کے ابھی پلاسٹر نہیں اترے’۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ 70 فیصد پنجاب کا دورہ مکمل کرچکی ہیں اور ہر جگہ جاکر اپنے ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز سے ملتی ہیں۔

‘میں تو عوام میں کھڑی ہوں۔ اگر کوئی انتخابات سے بھاگ رہا ہو تو وہ یہ مشق کیوں کرے گا؟ ہم جانتے ہیں کہ انتخابات آج ہوں، کل ہوں، اپریل، مئی، جون یا نومبر میں ہوں۔ 2023 انتخابات کا سال ہے اور مسلم لیگ (ن) سلیکٹ ہوکر نہیں بلکہ منتخب ہوکر آتی ہے اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے جو سلیکٹ ہوکر آئے ہیں ان کو ہم وہیں بھیجیں گے جہاں سے وہ آئے ہیں۔’

‘مہنگائی عمران خان کی وجہ سے ہے’

مہنگائی کے حوالے سے سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا مہنگائی اور عمران خان ایک ہی چیز کا نام ہے۔ ‘آپ 2013 سے 2018 تک قیمتوں کا جائزہ لیں پھر آپ اس وقت سے جب اس نااہل شخص کے ہاتھ میں حکومت آئی اور 2022 تک کا تقابلی جائزہ لیں تو آپ کو سب چیزیں سمجھ آجائیں گی۔ مہنگائی کا الزام مسلم لیگ (ن) کے سر تھونپنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن عوام سب جانتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا لیکن عام اشیائے ضروریہ اور غریبوں کی ضروریات کی تمام اشیا کی قیمتیں 4 برس تک مستحکم رہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی مسلم لیگ (ن) کی لائی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی معیشت ایسی چیز ہے جسے راتوں رات بدلا جاسکتا ہے۔ جو تباہی 4 سال میں ہوچکی اس کے مداوے میں کئی برس تو لگیں گے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور میں نے کہا تھا کہ عمران خان کو مالیاتی فنڈز کی ٹیم کے سامنے بٹھائیں تاکہ عوام کو پتا چلے کہ وہ کیا معاہدے کر گیا تھا، جس کی کتنی بڑی قیمت آج عوام اور حکومت کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ اپنےضمیر کو کیا جواب دیتے ہوں گے، پتا نہیں ان کے ضمیر زندہ بھی ہیں یا نہیں؟

‘اسحق ڈار کی کارکردگی سے مطمئن ہوں’

مریم نواز نے کہا کہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد سے 2، 3 بار پیٹرول کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ اگرچہ وہ بہت کم تھی لیکن کمی ہوئی حالانکہ کے گزشتہ برسوں میں ان میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔

‘جو لوگ کہتے تھے کہ ہم آلو، پیاز، ٹماٹر کا ریٹ پوچھنے نہیں آئے، سوکر اٹھا تو ٹی وی سے ڈالر کے ریٹ کا پتا چلا۔ ہم اس قسم کی غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار ہر وقت فکر میں رہتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو ریلیف دینا ہے۔ جو شخص قیمتیں بڑھاتے ہوئے 10 مرتبہ سوچتا ہے، اس پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس فتنے نے جو معاہدہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا تھا اس نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔’

ان کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ (ن) پر بہت بوجھ ہے کہ اس نے عوام کو ڈیلیور کرنا ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا اثاثہ اس کی معاشی کارکردگی ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آئی اس نے معاشی بہتری پر توجہ دی۔ پاکستان ہمارا ملک ہے اور کسی نے یہ ذمہ داری تو لینی تھی لہٰذا مسلم لیگ (ن) آگے بڑھ گئی۔ ‘میں بہت پُرامید ہوں کہ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے’۔

‘ڈان لیکس مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا کی طاقت کا اعتراف تھا’

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا کی طاقت کا اعتراف تھا۔ اسے منفی طور پراجاگر کیا گیا اور اس کے پیچھے بھی سازش اور ایجنڈا تھا لیکن درحقیقت وہ مسلم لیگ (ن) کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔

آج مسلم لیگ (ن) کا متحرک سوشل میڈیا ملک بھر میں ہر صوبے اور ہر ضلع کی سطح پر مصروف عمل ہے۔ ‘میں جہاں بھی جاتی ہوں سوشل میڈیا ٹیم سے الگ سے ملاقات کرتی ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں اور ان کے لیے ورکشاپس بھی کرائی جاتی ہیں۔ ہماری سوشل میڈیا ٹیم انتہائی متحرک اور پارٹی کا اثاثہ ہے۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کا ڈیجیٹل ونگ بھی بنایا ہے۔ تاہم ہماری اصل طاقت حق اور سچ کی آواز ہے۔ یہ کوئی سائفر کا بیانیہ نہیں۔ یہ جیل بھرو اور بیل بھرو کا فرق نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس بولنے کے لیے سچ ہے اور سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے’۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp