‘ آنکھیں کائنات کی راہداری ہیں’ یہ مقولہ پندرہویں اور سولہویں صدی کے عظیم فنکار لیوناردو ڈاونچی سے منسوب ہے۔یوں تو ڈاونچی کو تاریخ میں ایک پولی میتھ یعنی ہر فن مولا سمجھا جاتا ہے۔ اور اس عظیم الشان کلاکار کا فنی مقام اتنا بلند ہے کہ شاید ہی کوئی اس کے قریب پہنچا ہو۔ مگر فن تعمیرات اور مصوری میں بلاشبہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔
اس نے پندرہویں صدی میں قریب ان تمام بڑی ایجادات کی سکیچنگ مکمل کر لی تھی جو بالخصوص صنعتی انقلاب کے دور میں دنیا کا نقشہ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثلاً ہیلی کاپٹر، پیرا شوٹ، توپ، ٹینک اور پلوں کی سکیچنگ وغیرہ۔ لیکن یہ جینیس اپنی مصوری کے اعتبار سے تاریخ میں ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں شاید مزید چھ سات صدیوں تک بھی کوئی دوسرا نہ پہنچے۔
مونا لیزا جس نے ڈاونچی کو امر کر دیا
یوں تو لاسٹ سوپر، وٹرووین مین، سیلف پورٹریٹ بائے ڈاونچی، عورت کا سر اور جینورا ڈی بنسی اس کی مشہور پینٹنگز ہیں جن میں دی لاسٹ سوپر عیسائی مذہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں کی کہانی ہے جس میں ایک عشائیے کی ڈرامائی عکاسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ خدشہ ظاہر کرتی جو انہیں اپنے بارہ حواریوں میں سے ایک کے متعلق تھا کہ کہیں وہ اپنے کسی ایک حواری سے مستقبل قریب میں فریب کھائیں گے۔
لیکن جس عظیم شاہکار نے ڈاونچی کو تاریخ میں امر کیا یقیناً وہ ایسا ہے کہ ہر عام و خاص نے کم از کم زندگی میں ایک بار اس کا نام ضرور سن رکھا ہو گا۔ اور وہ ہے ‘دی مونا لیزا’۔ یہ 1515 سے 1519 کے درمیان تخلیق کی گئی ایک ایسی پینٹنگ ہے جس کے متعلق کہیں کئی کہانیاں ہیں۔ مونا لیزا میں ایک الگ ہی سحر ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کیے دیتا ہے۔ آخر وہ حسینہ کون تھی جس کا عکس نہ صرف خود امر ہو گیا بلکہ ڈاونچی کی شہرت کو میلوں بلند کر گیا۔
مونا لیزا کی پینٹنگ والی خاتون کون تھی؟
اس بارے میں بے تحاشہ قیاس آرائیاں ہیں مگر جو بات قابلِ یقین سمجھیں جاتی ہے اس کے مطابق یہ فلورنس کے ایک تاجر کی بیوی تھی جس کا نام لا جیوکانڈو ہے۔ کہتے ہیں لیونارڈو نے اس پینٹنگ پہ قریب تین سال کام کیا اور جب یہ مکمل ہوئی تو اس کی موت کے بعد اس کے سٹوڈیو سے برآمد ہوئی جسے فرانسیسی شہنشاہ فرانسس اول نے شاہی آرٹ گیلری میں سجائے رکھا۔ جو بعد میں فرانس کے مختلف مقامات پر نمائش کے لیے آویزاں ہوتا رہا مگر اٹھارویں صدی میں فرانسیسی انقلاب کے دوران عوام نے اسے اپنی ملکیت میں لینے کی کوشش کی مگر پھر باہمی رضامندی سے انیسویں صدی شروع ہوتے ہی اسے لوو میوزیم میں سجایا گیا۔
جب مونا لیزا چوری ہو گئی؟
جب 1911 میں اس مشہورِ زمانہ پینٹنگ کی چوری کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت کہ مشہور فنکار پابلو پکاسو سمیت کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور لوو میوزیم کے ڈائریکٹر نے استعفیٰ دے دیا۔ دو سال بعد ڈرامائی طور پر فلورنس میں کسی آرٹ ڈیلر نے لوکل اتھارٹیز کو بتایا کہ اسے کوئی ایک پینٹنگ بیچنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ اس کے نزدیک مونالیزا ہی ہے۔ پھر جب اس شخص کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ وہ لوو میوزیم میں گلاس فٹنگ کا کام کرتا تھا اور اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے جنہوں نے اس جرم میں اس کی مدد کی تھی۔ لیکن اب مونا لیزا فرانس واپس جانے کے بعد اٹلی کے میوزیمز میں اپنی جلوہ گری کے دورے پہ نکلی اور پھر واپس لوومیوزیم پہنچ گئی۔1963 میں اس نے امریکی خاتون اول جیکی کینڈی کی درخواست پر امریکہ کا دورہ کیا جبکہ گیارہ سال بعد اسے جاپان کہ سیر بھی کرائی گئی۔
‘انسانی جان سے زیادہ مونا لیزا کی حفاظت’
دوسری جنگ عظیم میں مونا لیزا کو انتہائی حساس مقام پر رکھا گیا اور اس کی بہت کڑی نگرانی کی گئی۔ بلکہ اسے ایک نایاب شاہکار قرار دے کر دوران جنگ انسانی جانوں سے بھی زیادہ محفوظ رکھا گیا۔
مونا لیزا کی قیمت کیا ہے؟
سن 1962 میں اس کی قیمت 100 ملین امریکی ڈالر لگائی گئی جبکہ ہر سال اس کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ 2023 میں اس پینٹنگ کی قیمت ایک ارب امریکی ڈالر کے قریب تک مقرر کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی قانون کے مطابق اس شاہکار کی خریدوفروخت پر پابندی عائد ہے۔ آپ اسے لوو میوزیم جا کر ہی دیکھ سکتے ہیں یا کسی دوسرے میوزیم میں اس کی کاپی دیکھ سکتے ہیں۔
کیا مونا لیزا کا کوئی نعم البدل نہیں؟
اس کی درجنوں کاپیاں بنائی گئی ہیں میڈرڈ میں ایک کاپی جو کہ ڈاونچی کے ایک طالب علم سے منسوب کی جاتی ہے مونا لیزا کا انتہائی شاندار ریپلیکا ہے 1778 میں اس کی ایک کاپی لندن میں لائی گئی جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ بھی ڈاونچی کی تخلیق ہے جبکہ اس کے بعد بھی ایسے دعوےکیے جاتے رہے۔
یہ شاہکار 77 سینٹی میٹر اونچا اور 53 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ آئل آن ووڈ یعنی لکڑی کے تختے پہ بنائی گئی یہ پینٹنگ فلورنس کے فیشن کی عکاسی کرتی ہے۔ انتہائی سادہ انداز میں کھڑی مونا لیزا جس کا ایک ہاتھ غالباً کسی بالکونی پہ لگی گرل پہ رکھا ہے جبکہ دوسرا ہاتھ اس پہ انتہائی نفاست سے ڈھیلے سے انداز میں دھرا ہے گویا ہاتھ باندھنے سے ذرا پہلے فوٹو کھچ گئی ہو۔
پس منظر کے رنگ ذرا مدھم کیوں ہیں؟
اس شاہکار کا پس منظر ہی ہے جو اس کو بہت زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں ایک رستہ ہے جو نجانے کہاں جاتا ہے۔ ایک ندی ہے جو جانے کس طرف کو بہتی ہے۔ کچھ درخت ہیں۔ دیکھنے والا پرندوں کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ ہاں شاید ڈاونچی کے کان میں دوران تخلیق ان کی آوازیں تک گونجی ہوں۔ دور تک پھیلا ہوا آسمان ایسے نظر آتا ہے کہ جیسے گندم کی کٹائی کا موسم ہو اور ہر طرف سنہری رنگ ہی دکھائی دے۔ مگر دوسری طرف ہرے رنگ کے درخت اور ہلکی سرخ مٹی موسم کے بارے میں ایک وہم سا پیدا کرتے ہیں۔ آپ پس منظر میں چلنے والی رت کا تعین نہیں کر سکتے۔ لباس کا رنگ بہت سادہ ہے اور رنگ ایسا کہ شاید کوئی اس رنگ کا نام بتا سکے۔ سیاہ اور سنہری رنگ کے درمیان کہیں آنکھوں کو ایک عجیب سے احساس میں مبتلا کرنے والا لباس اتنا مناسب ہے جیسے یہ خود کہہ رہا ہو کہ میں اس جسم کے لیے کافی ہوں۔ کندھے پہ لٹکتی ہوئی چادر اور بازوؤں پہ قمیض کی سلوٹیں بتاتی ہیں کہ تخلیق کی دیوی مونا لیزا پہ صدقے واری جاتی ہے۔
کیا واقعی اس پینٹنگ سے زندگی جھلکتی ہے؟
ڈاونچی کی اس پینٹنگ میں جو تکنیکی مہارت سامنے آئی اس نے فن مصوری کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ سفیمیٹو کا مطلب ہے کہ مناسب شیڈنگ یعنی لائیٹ اور ڈارک کلرز کے ایسے برش سٹروکس جن سے سایہ صاف نظر آئے۔ آنکھوں کی پتلیاں ہوں یا ناک کے نتھنے ایسے لگتا ہے جتنی روشنی میسر ہے اس میں کھڑی حسن کی دیوی ٹھیک ٹھیک زندہ و جاوید نظر آ رہی ہے۔ یہی تو لیونارڈو کا کمال تھا کہ اس نے بت نہیں بنایا مگر اس میں گویا روح پھونک دی ہو۔ مجسمہ اگر ہائپر رئیلسٹک ہو تو آپ کو اس میں جھلکتی ہوئی زندگی محسوس ہوتی ہے مگر پینٹنگ میں آپ مصنوعی پن کو زیادہ نظر انداز کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں کشش اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ محوِ حیرت آنکھیں جسم سے نکل کر اس میں دھنس جانے کی آرزو کرتی ہیں۔
مونا لیزا ایک جہان حیرت ہے
بہت سی تانیثیت پسند خواتین کا دعویٰ ہے کہ فن مصوری میں خواتین کے جسم کو بطورِ نمائش پیش کیا گیا ہے۔ کوئی اگر مونالیزا کا چوڑا سینہ بھی دیکھے جو کہ بے لباس ہے اور یہ کہے مجھے اس میں بھری شہوت دکھائی دیتی ہے تو یقین جانیے یا تو وہ سائیکو پیتھ ہے یا جھوٹ بولتا ہے۔ مونا لیزا ایسے جذبات بیدار ہونے کا موقع تک نہیں دیتی اور ہم اس کے کسی دوسرے ہی جہان میں محوِ حیرت ہو جاتے ہیں۔
پُراسرار مسکراہٹ
دور کہیں جب دن ڈھلے اور آپ اکیلے ہوں تو اپنے موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کہیں سے مونالیزا کی ایک کلر کاپی اٹھائیں اور اس کی آنکھوں میں دیکھیں۔ وہ آپ کو دیکھتی ہے مگر جانے آپ جہاں بیٹھے ہیں وہاں ہیں یا نہیں ہیں۔ آپ کو اپنی ہی موجودگی اور غیر موجودگی کے دو احساس ایک ہی وقت میں آ گھیریں گے۔ آپ کو لگے گا کہ وہ آپ کو ہی دیکھ رہی ہے مگر آپ جہاں ہیں وہاں سے ذرا ہٹ کے ادھر کو بیٹھے ہیں۔ آپ اس کی مسکراہٹ پہ ایک نظر ڈالیں۔ ارے وہ تو ایسے مسکرا رہی ہے جیسے دنیا جہان کی خوشی اس کے اندر ہے یا شاید دکھ ہے۔ مگر وہ ہلکی خفیف مسکراہٹ سارے طوفان کے سامنے ایک بند باندھے ہوئے ہے۔
اک نظر پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر لبوں کی طرف دیکھیں۔ ارے یہ تو شاید مسکرا ہی نہیں رہی۔ بند ہونٹوں کے نیچے کہیں کوئی بات دب گئی ہے۔ زوم کر کے دیکھیں یہ کیا کر رہی ہے۔ کوئی سوال پوچھ رہی ہے۔ کوئی جواب دے رہی ہے۔ کیا کر رہی ہے؟ اگر آپ کو اس سب کے علاوہ کچھ محسوس ہوتا ہے تو وہ بھی ایک جہان حیرت ہے۔ یہی فن کی خوبصورتی ہے کہ جتنے انسانوں نے مونالیزا کو دیکھا ہو گا شاید ان کا احساس لفظوں کا پیرہن نہیں پہن سکتا اور زبان ہمیشہ اظہار کے آڑے آتی ہے۔
بے جان تختے پر بنی جاندار تصویر
بھلے آپ اسے میری مبالغہ آمیزی سمجھ لیں۔ مگر لوو میوزیم میں اپنے پرتعیش کمرے کی ایک دیوار پر سجی مونالیزا، لکڑی کا ایک بے جان تختہ ہو کر بھی زندہ انسانوں سے کہیں بہتر وقت گزار رہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ڈاونچی کے برش سٹروکس سے زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ تصویر میں جو انسان نظر آتا ہے ایسے لگتا ہے کہ وہ زندہ ہے اور پھر وہ زندگی کیوں نہ جیے جب یہ لگتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔
مونا لیزا کے دشمن
لکڑی کے تختے پہ سجی اس خاتون کے جہاں چاہنے والوں کی تعداد ناقابلِ یقین ہے وہیں اس کے دشمنوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ مونا لیزا نہ صرف چوری ہوئی بلکہ 1974 میں اس پر پینٹ سپرے کیا گیا اور 2009 میں اس پر کافی کا مگ پھینکا گیا۔ اس پہ تیزاب پھینکا گیا پتھر مارے گئے مگر اب یہ حسین پینٹنگ بلٹ پروف شیشے میں محفوظ لوو میوزیم کی رونق ہے۔ لوگ اسے صرف دیکھنے نہیں آتے بلکہ پھول پیش کرتے ہیں اسے آئی لوو یو مونا لیزا کہتے ہیں یہاں تک کہ اب اس کا اپنا ایک میل باکس ہے۔ لوگ اسے لوو لیٹر لکھتے ہیں۔ کیا ناقابلِ بیان احساس ہے جب کوئی مونا لیزا کو آئے لوو یو کہتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ زندہ نہیں بس محض زندہ لگتی ہے۔