بابری مسجد کی جگہ ’ رام مندر ‘ کا افتتاح، بھارت کا عدالتی نظام بے نقاب

پیر 22 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ایسے مندر کا افتتاح کیا ہے جو ان کی طاقت ور ہندو قوم پرست سیاست کی فتح کی علامت سمجھا جا رہا ہے، مقصد واضح ہے کہ انہوں نے ہندو قوم پرستوں کے دل جیتنے کی کوشش کے طور پر اس سال اپنی انتخابی مہم کا غیر رسمی آغاز بھی کر دیا ہے۔

سنہرے رنگ کے روایتی لباس میں مودی نے 50 میٹر طویل مندر کے وسط میں ’دیوتا رام‘  کے نام کی کالے پتھر کی مورتی کی نقاب کشائی کی ہے، یہ مورتی اور مندر اب اس میدان میں ہیں جہاں 1528 میں تعمیر کردہ 16 ویں صدی کی تاریخی ’بابری مسجد‘ ہوا کرتی تھی، جسے 1992 میں مودی کی جماعت کے ارکان کی طرف سے اکسائے جانے والے ہندو انتہا پسندوں نے شہید کر دیا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت نے برترین مذہبی فسادات کو جنم دیا

بابری مسجد کی شہادت نے بھارت کے اندر بدترین مذہبی فسادات کو جنم دیا، ان فسادات میں 2،000 افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات نے ہندوستان کے سیکولر سیاسی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

پیر کو جب بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی ’رام مندر‘ کا افتتاح کر رہے تھے تو باہر ہزاروں ہندو انتہا پسند جھنڈے لہرا رہے تھے، ہارن بجا رہے تھے اور ڈھول بجا رہے تھے، شمالی شہر ایودھیا کی سڑکوں پر ایک الگ ہی منظر تھا اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آسمان سے پھولوں کی پتیاں برسائی گئیں۔

ادھر ایودھیا کی مسلم کمیونٹی کے کچھ ارکان کو بھی اس اسٹریٹ پارٹی میں شامل ہوتے ہوئے دیکھا گیا جب کہ اطلاعات کے مطابق حزب اختلاف کے رہنما اس سے دور رہے۔

رام مندر کا افتتاح، ہندو انتہا پسند سوچ کامیاب ہو گئی

مؤرخین کہتے ہیں مودی کی حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ’رام مندر ‘کا افتتاح ان کی حکمرانی کو اپنے عقیدے کے ساتھ جوڑنے کی دہائیوں سے جاری مہم کا ایک تاریخی لمحہ ہے۔

مودی نے انسانی سائز کی اس مورتی کے قدموں میں پھولوں اور جواہرات کے ہار پہنائے، مورتی کے قدموں میں سجدے کیے اور قدموں میں ہی لیٹ کر ’پتھر کی مورتی‘ کو خراج عقیدت پیش کیا اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ بھگوان نے مجھے ہندوستان کے تمام لوگوں کی نمائندگی کرنے کے لیے چنا ہے۔

فلمی ٹائیکونز، کرکٹرز اور اداکاروں کی بھی شرکت

’رام مندر‘ کی افتتاحی تقریب کے دوران ہندو انتہا پسندوں کا جوش و خروش عروج پر تھا اور ہزاروں ہندو کھچا کھچ بھری گلیوں میں رقص کر رہے تھے اور بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر وں سے مذہبی دھنیں بج رہی تھیں۔

تقریباً 2500 موسیقار 100 سے زیادہ اسٹیج فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ اس وسیع و عریض مندر جس کی تعمیر پر قریباً 240 ملین ڈالر کی لاگت آئی کے ارد گرد یاتریوں کا ایک ہجوم جمع کیا جا سکے۔

افتتاحی تقریب کے مہمانوں میں بھارتی بزنس اور فلمی ٹائیکونز، قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ویرات کوہلی اور بالی ووڈ کے مشہور اداکار امیتابھ بچن بھی شامل تھے۔

’رام مندر‘ کی تعمیر پر پاکستان کی مذمت

 ادھر پاکستان نے ’ رام مندر‘ کے افتتاح کو ہندوستان میں بڑھتی ہوئی اکثریت پسندی کی علامت اور شہید بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کو بھارت کی جمہوریت کے چہرے پر دھبہ قرار دیا ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے بھارت کو متنبہ کیا کہ اس کا بڑھتا ہوا ’ہندوتوا‘ نظریہ امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ بیان میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

اسلام آباد کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کر چکے تھے اور یہاں پوجا پاٹ کی تقریب کی قیادت کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ 2019 میں سپریم کورٹ نے ’بابری مسجد ‘ کی زمین ہندوؤں کے حوالے کر دی تھی اور مسلمانوں کو ایک علیحدہ پلاٹ الاٹ کرنے کا حکم دیا تھا جہاں نئی مسجد کی تعمیر ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔

دفتر خارجہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف مسجد کی شہادت کے ذمہ دار مجرموں کو بری کیا بلکہ شہید بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کی بھی اجازت دی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی جاری کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ شہید کی گئی مسجد کے مقام پر تعمیر کیا گیا مندر آنے والے وقتوں میں بھارت کی جمہوریت کے چہرے پر بد نما دھبہ رہے گا۔

اسلام آباد نے نئی دہلی سے مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات سمیت مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور انسانی جرائم کا نوٹس لے۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 اکتوبر کی صبح 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو متنازع زمین دینے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر جہاں ہندوؤں کی جانب سے جشن منایا گیا، وہیں بھارتی مسلمانوں کی جانب سے فیصلے پر مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا تھا ۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 27 سال بعد فیصلہ دیا

سپریم کورٹ نے قریباً 27 سال بعد یہ فیصلہ سنایا تھا، 1528ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے بھارت کی حالیہ ریاست اتر پردیش کے شہر’ایودھیا‘ پر بابری مسجد تعمیر کروائی تھی ۔

ہندوؤں کے عقیدے کےمطابق ’ایودھیا‘ وہ مقام ہے جہاں ان کے دیوتا ’رام‘ کی پیدائش ہوئی اور اسی شہر میں مسجد کی تعمیر کے بعد وہ برہم ہو گئے تھے۔

ساتھ ہی ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی تھی، وہاں ایک مندر تھا، جسے 16 ویں صدی میں گرایا گیا تھا، تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ مسلمانوں کی جانب سے مندر گراکر اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔

بابری مسجد کے قضیے کا تاریخی پس منظر

تاریخ بتاتی ہے کہ 1885 میں ایک ہندو مذہبی رہنما مہنت رگھوبیر داس نے مسجد کے باہر اپنی عارضی رہائش گاہ قائم کرنے کے لیے ایودھیا شہر کے ضلع فیض آباد کی عدالت میں درخواست دائر کی، تاہم عدالت نے اسے مسجد کے باہر اپنی رہائش گاہ تعمیر کرنے سے روک دیا تھا ۔

1949 میں بابری مسجد کے مرکزی گنبد میں رام کی مورتیاں رکھی گئیں

1949 میں ہندو انتہا پسند رہنماؤں نے تاریخی بابری مسجد کے مرکزی گنبد میں ’ رام‘ کی مورتیاں رکھ دی تھیں جبکہ 1950 میں انہی انتہا پسند ہندؤوں نے ایک مقامی عدالت میں بابری مسجد کے اندر ’رام‘ کی مورتیوں کی پوجا کرنے کی قانونی اجازت کے لیے درخواست دائر کر دی۔

1959 میں ہندو انتہا پسندوں نے اسی مقامی عدالت میں بابری مسجد کی جگہ پر قبضے کے لیے اور یہاں ایک اکھاڑہ قائم کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی جب کہ 1981 میں یہاں اتر پردیش کے وقف بورڈ نے بابری مسجد کی زمین پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی۔

1986 میں بابری مسجد میں رام کی پوجا کی اجازت دی گئی

سب سے متنازع فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب 1986 میں یہاں کی مقامی فیض آباد کی عدالت نے ہندو انتہا پسند رہنماؤں کی درخواست پر انہیں مسجد میں’رام‘ کی پوجا کرنے کی اجازت دے دی جب کہ 1986 میں ہی الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد میں رکھی گئی ’رام‘ کی مورتیوں کو وہاں ہی رکھے جانے کا حکم دے دیا۔

1992 میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا

بھارتی عدالتوں کے غلط فیصلوں سے ہندو انتہا پسندوں کو شے ملی اور یوں انہوں نے 1992 میں تمام حدیں عبور کرتے ہوئے تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا۔ اس کے بعد یہاں فسادات پھوٹ پڑے جن میں تقریباً 2 ہزار افراد قتل اور ہزاروں کی تعداد میں ہی زخمی ہوئے۔

بعد میں بابری مسجد کے قضیے میں بھارت کی تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں، حتیٰ کہ وفاقی حکومت بھی کود پڑی اور یوں 1993 میں وفاقی حکومت نے بابری مسجد کی جگہ کے حوالے سے ایک نیا قانونی ایکٹ نافذ کردیا اور اسی سال بابری مسجد کی زمین کی مالکیت  سے متعلق ہندوؤں سمیت مسلمانوں نے بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں۔

بھارت کی مرکزی حکومت نے ایک اور چال چلی کہ 1993 میں ہی بھارتی سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کے آرٹیکل 193 کے تحت بابری مسجد سے متعلق تمام درخواستوں کو اپنے ہاں منتقل کرنے اور خود سماعت کا حکم دیا، جہاں یہ کیس 9 اکتوبر 2019 تک تقریباً 27 سال تک چلتا رہا۔

مسجد کا تعلق کسی اسلامی عبادات سے نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

اس سے قبل 1994 میں بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مسجد کا تعلق کسی اسلامی عبادات سے نہیں، یہ عبادات مسجد کے بغیر بھی کی جا سکتی ہیں، یہ دلیل کئی سالوں تک دہرائی جاتی رہی اور 2003 میں کہا گیا کہ شہید مسجد کی جگہ کسی بھی مذہبی رسومات کی اجازت نہیں۔

2010 میں بابری مسجد کو 3 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا

بھارتی سپریم کورٹ نے 2010 میں ’بابری مسجد‘ کی زمین کو 3 حصوں مسلمانوں، ہندوؤں اور سنی وقف بورڈ میں تقسیم کرنے کا حکم دے دیا اور یوں یہاں ایک نئی سازش شروع ہوئی جس کا آغاز 2016 میں شروع کیا گیا۔

2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیدی

سپریم کورٹ میں یہاں رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دی گئی، سپریم کورٹ نے 2019 میں ہی اس کا فیصلہ سنا دیا اور یہاں رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دیدی۔

سول سوسائٹی اور مسلم تنظیموں نے عدالت کے اس فیصلے کو بھارت کے کریمنل جسٹس سسٹم کی مکمل ناکامی اور انصاف کا خون قرار دیا۔

مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی سے وابستہ ڈاکٹر سید قاسم رسول الیا س نے اس فیصلہ کو انتہائی افسوس ناک اور انصاف کا خون قرار دیا تھا ۔

اس سب کے باوجود بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے مسلمانوں کے اس تاریخی ورثے کو مٹانے کے لیے ہر جھوٹ اور حربہ استعمال کیا اور اس میں مودی سرکارنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے مقصد میں تو کامیاب ہوئی لیکن اس نے بھارت کے سیکولر اور انصاف پسند چہرے کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp