پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کیماڑی میں جب بھی کسی شپنگ کمپنی کا مال بردار جہاز داخل ہوتا ہے تو وہ دراصل سیاہ پانی کے سب سے بڑے عالمی جوہڑ میں داخل ہوتا ہے۔ جہازوں سے نکلنے والا ایندھن، ہزاروں ماہی گیر کشتیوں سے پھینکا جانے والا کچرا اور شہر سے سمندر میں داخل ہونے والا خام سیوریج اور فضلہ اس پانی کو مسلسل سیاہ رکھنے کی ضمانت ہے۔ اس پانی میں اتنی آکسیجن بھی نہیں ہوتی کہ کوئی سمندری مخلوق زندہ رھ سکے۔
جہاز دنیا بھر سے مال لاد کر یہاں پہنچاتے ہیں اور ان کا عملہ یہاں سے ایک عجیب سی بو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ یہیں پر نیوی کا ڈاکیارڈ اور شپنگ یارڈ بھی ہے۔ اس بندرگاہ کے بالمقابل 3 جزیرے ہیں۔ منوڑا ، بابا اور بھٹ آئی لینڈ۔
منوڑا اپنے پرانے لائٹ ہاؤس، بحری تنصیبات اور اکیڈمی کے سبب جانا جاتا ہے جبکہ بابا اور بھٹ آئی لینڈ ماہی گیروں کی وہ بستیاں ہیں جہاں زندگی 500 برس پیچھے چل رہی ہے۔ یہ دونوں جزیرے گنجان آباد ہیں۔ مگر ان میں انسانی استعمال کا پانی نایاب ہے اور کشتیوں میں لاد کے شہر سے لایا جاتا ہے۔ یہاں کے باسی یہ پانی 250 روپے فی 40 لیٹر کے حساب سے خریدتے ہیں جسے وہ پیتے اور نہاتے دھوتے ہیں۔
کسی پچھلی حکومت نے ان کے لیے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک ایک عدد آر او پلانٹ بھی نصب کیا تھا جو چند دن بعد ہی مینٹیننس نہ ہونے کے سبب دم توڑ گیا۔ خشکی سے جزیرے تک پانی کی ایک پائپ لائن بھی بچھائی گئی تھی مگر عرصہ ہوا اسے پانی چکھے ہوئے۔ اب اس کے اندر ہوا کا بسیرا ہے۔
باقی کراچی میں پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی کی سہولت موجود ہے مگر ان جزائر کے مکیں گیس سلنڈر استعمال کرتے ہیں یا پھر قریب ہی موجود تمر کے جنگلات کی لکڑی کاٹ لیتے ہیں۔
کوئی سیوریج سسٹم نہ ہونے کے سبب اپنا کچرا پانی میں بہا دیتے ہیں۔ سب کے سب نسل در نسل وراثت میں ملے خطِ غربت تلے زندگی گزارتے ہیں اور خود گہرے سمندروں سے وہ مچھلی پکڑ کے لاتے ہیں جسے یہ خود خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بالکل اپنی نگاہوں کے سامنے بندرگاہ کی گودیوں پر 24 گھنٹے وہ وہ سامان اترتے دیکھتے ہیں جسے وہ صرف خواب میں ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
جب ماہی گیری کا سیزن نہیں ہوتا یا سمندر بپھرا ہوا ہوتا ہے تو یہ انسان جزیرے کی ٹیڑھی میڑھی کچرا آلود پان کی پیک سے بھری دیواروں کے بیچ بنے چائے خانوں یا تھڑوں پر بیٹھ کے اپنا وقت کاٹتے ہیں۔
تقریباً ہر زن و مرد و طفل پان اور گٹکے کا رسیا ہے۔ اگر سروے کیا جائے تو یہاں فی ہزار نفوس میں آپ کو منہ اور جلد کی بیماریوں کے سب سے زیادہ مریض ملیں گے۔ مگر گندگی نے ان کے جسمانی مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کے بجائے خود کو ان کے معیارِ زندگی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔
کہنے کو بابا اور بھٹ آئی لینڈ میں پرائمری اور ہائی اسکول کی عمارتیں بھی ہیں۔ مگر وہاں جو تعلیم میسر ہے وہ نہ بھی ہو تو بال برابر فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایک مرکزِ صحت کی عمارت بھی موجود ہے جو کسی پچھلی حکومت اور کسی جرمن این جی او کا عطیہ ہے۔ مگر اس عمارت کو ویرانی، کتے، منشیات کے عادی افراد اور مریض پرامن بقائے باہمی کے اصول پر برتتے ہیں۔
ویسے بھی جہاں بجلی ہی کئی کئی روز کے لیے غائب رہتی ہو وہاں صحت مرکز، اسکول یا سیوریج سسٹم ہو نہ ہو، کام کرے نہ کرے کیا فرق پڑتا ہے۔
ان ماہی گیروں کی کشتیوں کو جیٹی میسر ہونی چاہیے لیکن کچرے اور کیچڑ سے بنے کوہ ِ سیاہ کو بطور جیٹی استعمال کیا جاتا ہے۔ بابا ائی لینڈ کے مکینوں نے کچھ عرصہ پہلے خود ہی چندہ جمع کر کے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دیسی اسٹائیل کی جیٹی تعمیر کر لی۔ کیونکہ اس کی تعمیر کے لیے سرکاری بجٹ سے جو رقم مختص کی گئی تھی اس کی بندر بانٹ حسب توقع بالا بالا منتخب نمائندوں اور افسروں میں ہو گئی۔
ان جزیروں میں گنتی کے کچھ متمول ماہی گیر بھی ہیں جنہوں نے اپنی دو چار کشتیاں ماڈرن کر لی ہیں۔ ان میں وہ تمام سہولتیں بھی موجود ہیں جو ان میں سے کسی کے گھر میں نہیں۔ یہ کشتیاں ان خوشحال لوگوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں جو بیچ سمندر میں پارٹی کرنے کے شوقین ہیں۔
جب ان کشتیوں کے ملاح ان پر برپا سالگرہ، شادی، کارپوریٹ فنکشنز اور مجروں میں کرنسی نوٹ اور رنگین بوتل پانی کی اچھال دیکھتے ہوں گے تو شروع شروع میں شاید اپنی زندگی سے موازانہ کرتے ہوں مگر اب ان کے لیے سب کچھ نارمل ہے۔
پہلے یہ لوگ غصے میں آ جاتے تھے۔ ہر الیکشن کے موقع پر برسوں بعد شکل دکھانے والے پرانے نمائندوں کے سامنے اونچی آواز میں تکالیف بھی دہراتے تھے۔ ان چوہدریوں کے سرخ و سپاٹ چہروں پر زرا سی غیرت لانے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔ اب عرصہ ہوا انہوں نے ووٹ کے بھکاریوں سے حجت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہ ان خوشحال کنگلوں سے کچھ طلب نہیں کرتے۔ اپنی جیب سے چائے پلاتے ہیں۔ جتنی عزت دے سکتے ہیں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔
سنہ 2018 میں جب میں ان جزائر پر آیا تھا تو اس وقت بھی اتفاق سے انتخابی موسم تھا۔ لوگ تب بھی اتنے ہی فارغ بیٹھے ڈھابوں پر چائے پی رہے تھے۔ کھانا اور بسکٹ بھی چل رہا تھا۔ اس بار میں نے نوٹ کیا کہ لوگ چائے تو پی رہے ہیں کھانا کوئی نہیں کھا رہا حالانکہ دوپہر کا وقت تھا۔
ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ اب میں خود بھی عرصہ ہوا کھانا نہیں بناتا۔ ڈیڑھ دو سو روپے میں ایک دال سبزی اور 2 روٹی پڑتی ہے۔ لوگ بسکٹ کا 40 روپے کا پیکٹ یا 20 روپے کے آلو چپس 40 روپے کی چائے کے ساتھ سڑکتے ہوئے خدا کا شکر ادا کر لیتے ہیں۔ پہلے اتنے پیسوں میں کھانا کھا لیتے تھے۔
دیواروں پر اب بھی 5 برس پہلے کی طرح پی پی پی اور نون کے تازہ نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر ان نعروں پر پان کی پیک پہلے کی نسبت زیادہ پڑی ہوئی ہے۔