کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک پشتون والد اپنی بیٹی کا رشتہ جوڑنے سے قبل اُس کی رضا مندی جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ گو کہ ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ بیٹی رشتے کے لیے راضی ہے، وہ پیار سے باپ کو کہتی ہے کہ اُن کی رضا میں وہ خوش ہے، والد پھر بھی پوچھتا ہے کہ اپنی مرضی بتاؤ، بیٹی اصرار کرتی ہے کہ اُن کا فیصلہ اُسے قبول ہے۔ بیٹی کے اندازِ گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوش ہے۔ پھر اس کے بعد بیٹی اپنے والد اور والدہ سے گلے ملتی ہے مگر بیک گروانڈ میں مذاق کیا جاتا ہے کہ انکار کردو ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے اور ایک ہنسی کے ساتھ ویڈیو ختم ہوجاتی ہے۔
اس ویڈیو میں پختون معاشرے کا ایک رخ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شادی سے قبل پشتون لڑکیوں سے ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی حالانکہ یہ ایک خوبصورت عمل ہے جس کی تاکید دینِ اسلام بھی کرتا ہے۔ مگر ہم نے اپنی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی اسی طرح ہوتا تھا مگر حضور کی بعثت کے بعد یہ فرسودہ روایات دم توڑ گئی تھیں، انانیت کی دیواریں ڈھ گئی تھیں اور بیٹیوں کو کوئی ‘شے’ سمجھنا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی سے قبل بھی ان کی پسند پو چھی گئی تھی۔ پھر ہم نے کیوں جاہلیت کے رواج کو پروان چڑھایا؟ کیوں ہم لڑکیوں کو ‘شے’ سمجھ کر انہیں کسی مرد کو ‘فروخت’ کر دیتے ہیں؟ کیوں ہم انہیں ان کی رضا کے بر خلاف کسی انسان کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں؟ خاتون کو بھی مرد کی طرح جینے کا حق ہے، اس کی رضا اور پسند کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی مرد کی۔ شریعت نے تو نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں۔ والدین اپنے بچوں کا کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں۔ اس سلسلے میں والدین کی طرف سے دباؤ، اعتراض اور ناراضی کا اظہار کرنا درست نہیں۔ ہاں خاندانی کفالت اور برابری نہ ہونے کی صورت میں والدین کو اعتراض اور ناراضی کا حق شریعت کی طرف سے حاصل ہے۔ اسی طرح بچے بھی ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں؛ اس لیے کہ جب اولاد اپنی مرضی سے کسی جگہ شادی کرتی ہے اور اس میں شرعی احکام اور والدین کی رضامندی کی رعایت نہیں رکھتی تو عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس طرح کی شادی میں لڑکا اور لڑکی کے وقتی جذبات محرک بنتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجتاً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اور علیحدگی کی نوبت آ جاتی ہے۔
دوسری طرف خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پرکھ کا تجربہ رکھنے والے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی جانب سے کرائے گئے رشتے زیادہ پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔ بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اور بچیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنے بڑوں پراعتماد کریں، ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں اور والدین بھی کوشش کریں کہ بچوں پر سختی نہ کریں۔ خاص کر بیٹیوں پر اپنی مرضی تھوپنے والا ظلم نہ کریں۔ ان کو اپنا ہم سفر اپنی مرضی اور پسند سے چننے کی کھلی اجازت دیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور بچی آپ سے چھپ کر کورٹ میرج کر لیتی تو اس کا یہ اقدام روایتی معاشرے میں آپ کی رسوائی کا سبب بنے گا۔ لیکن اگر آپ بچی کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے خود اس کی شادی کر دیں تو آپ کا بھرم قائم رہ جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ بچی کو چھوڑ دیں گے اور وہ اپنی مرضی سے شادی کر لیتی ہے تو مستقبل میں امکان ہے کہ اس کا شوہر اور سسرال اسے لاوارث سمجھ کر برا برتاؤ کرنا شروع کردے۔ لیکن اگر آپ خود آگے بڑھ کر اس فیصلے میں، دنیا کی نگاہوں میں، اس کا ساتھ دیں گے، تو آپ کی بچی کا بھرم قائم رہے گا اور اگر مستقبل میں کوئی مشکل ہو تو آپ آگے بڑھ کر بات کر سکتے ہیں اور آپ کی بچی کا سسرال میں مقام برقرار رہے گا۔
اور اگر بچی نے آپ کی بات نہیں مانی تو اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور نہ ہی اپنی بچی سے منہ موڑیں کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ والدین کا ایسا کرنا قطع رحمی ہے۔ بچی عاقل بالغ ہے۔ اگر اس نے والدین کی مرضی کے خلاف ہی فیصلہ کر لیا، تب بھی اس کے ساتھ صلہ رحمی کے شرعی تقاضے ختم نہیں ہوتے اور قیامت کے دن اس حوالے سے پوچھا بھی جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ تو سننے کو ملتا ہے کہ والدین کچھ بھی کر لیں، ان کے ساتھ نبھانا اولاد پر فرض ہے کہ یہی شریعت کا حکم ہے۔ لیکن اگر اولاد نے کسی موقع پر والدین کے فیصلے سے، اپنی ذاتی زندگی میں، انحراف کیا تو والدین کے لیے قطع رحمی جائز نہیں کہ وہ اپنے دروازے ہی اولاد کے لیے بند کر دیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے کہ بیٹی اپنی نادانی میں کسی غلط آدمی سے رشتہ جوڑنے پر مصر ہو تو اس کا والد اپنی بیٹی سے کھل کر بات کر لے تو مجھے یقین ہے کہ بیٹی مان جائے گی۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں باپ اشارے کنائیوں میں یا بس ہاں ناں کا فیصلہ سناتا ہے۔ پیار و محبت سے بیٹی کو قائل کرے تو یقیناً باپ کی بیس پچیس سال کی محبت دو چار سال کی محبت پہ غالب آ جائے گی۔
مجھے دوسری جانب یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو والدین اولاد کے لیے اتنی محبت کے دعوے کرتے ہیں وہ کس طرح اپنی ایک نافرمانی پر اتنے سخت دل ہو جاتے ہیں؟ وہ کیسے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس غلطی کے باوجود (جو گناہ بھی نہیں) وہ ان کی اولاد ہے۔ اگر اس نے اپنی مرضی سے شادی کر بھی لی تو کم از کم والدین انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بچی کی مصلحت کو مقدم رکھیں اور اس کے شوہر کو یہ باور کروائیں کہ اگرچہ وہ رشتے سے خوش نہیں لیکن وہ اپنی بچی سے دستبردار بھی نہیں ہو رہے اور اگر کل کلاں اس نے ان کی بچی کے ساتھ کوئی زیادتی کی، تو وہ انہیں اپنی بچی کے ساتھ پائے گا۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ پیار محبت ایسی آگ ہے کہ جتنی مخالفت ہوتی ہے اتنی یہ بھڑکتی ہے۔ اور بسا اوقات سخت مخالفت بچی کو مزید پختہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے اگر والدین یا بڑے بچی کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں، تو یہ سب سے بہترین حکمت عملی ہے۔ لیکن ایسا صرف تب کرنا چاہیئے جب بچی نادان ہو اور کسی ایسی جگہ رشتہ جوڑنا چاہ رہی جو اس کے لیے خطرناک ہو۔ وگرنہ بچی کی پسند کو مقدم جاننا چایئے اور اس کی پسند کا احترام کرنا چایئے۔
مگر ہمارے معاشرے میں جب بات خود پر آ جاتی ہے تو پھر اسلام کو دور کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہم اپنے فائدے کی آیتوں اور احادیث کو تو فوراً بیان کرتے ہیں لیکن جہاں ہمیں نقصان ہونا ہو یا ہماری غلطی واضح ہو رہی ہو، تو ہم متعلقہ احادیث اور آیات کو چھو کر بھی نہیں گزرتے۔ پختون معاشرے میں اگر اچھائیاں ہیں تو وہاں برائیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان برائیوں پر بات کرنا یا ان کے خلاف عمل کرنا ہم اپنی انانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی برائی رشتے سے قبل لڑکی کی مرضی نہ پوچھنا ہے۔ حالانکہ ہمارا دین ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب سوشل میڈیا پر ایسی فرسودہ روایات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مذکورہ ویڈیو کی طرح آگاہی پھیلائی جا رہی کہ اپنی بیٹیوں کی مرضی لازمی معلوم کریں کیونکہ بیٹی کی رائے جاننا انانیت نہیں اسلام ہے۔