حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ خوب وائرل ہورہاہے جس میں فرانسیسی کسان میکڈونلڈز کے اندر جاکر گلا سڑا چارہ پھینک رہے ہیں۔ آخر فرانسیسی کسانوں کو میکڈونلڈز پر غصہ کس بات کا ہے؟
دراصل فرانس میں کسان حکومت کی جانب سے دودھ اور گوشت کی قیمتیں کم کرنے اور ڈیری مصنوعات اور گوشت پر ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، گزشتہ سال نومبر میں شروع ہونے والے کسانوں کے احتجاج میں اب شدت آگئی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور خوردہ فروشوں کی طرف سے دودھ اور گوشت کی قیمتیں کم کرنے کے لیے دباؤ سے بہت سے کسان بجلی، کھاد اور نقل و حمل کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے ہیں، اس لیے حکومتی اپنی پالیسی تبدیل کرے اور ٹیکس واپس لے۔
روس کے حملے کے بعد سے یوکرین سے درآمدات رکنے کے بعد سے یورپی یونین نے درآمدات پر کوٹہ اور ڈیوٹیز معاف کر دی ہیں اور امریکی بلاک مرکوسر کے درمیان تجارتی معاہدے کے لیے نئے سرے سے مذاکرات شروع کیے ہیں، یورپی ممالک میں چینی، اناج اور گوشت کی کم قیمتوں نے کسانوں میں عدم اطمینان کو ہوا دی ہے۔
یورپی یونین کے کسانوں پر ماحولیاتی معیارات پر پورا نہ اترنے کے بھی الزامات ہیں، دیگر ملکوں سے ڈیری مصنوعات کی درآمدات ہورہی ہے، جس کے باعث یورپی ممالک کے کسان اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ حکومت کسانوں سے قیمتیں کم کرنے کا کہہ رہی ہے جبکہ ڈیری مصنوعات پر ٹیکس کا نفاذ بھی کررہی ہے۔
I’m 100% for the farmers but isn’t this the wrong institution to be targeting?
I thought it was the government that was the problem.
Am I missing something?pic.twitter.com/VO5kRKhsHW
— Paul A. Szypula 🇺🇸 (@Bubblebathgirl) January 24, 2024
کسانوں کا یہ احتجاج اب فرانس میں خاص طور پر شدت اختیار کرگیا ہے۔ گزشتہ روز فرانس میں کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکیں بند کردی جس سے سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی، اس سے ایک دن قبل میکڈونلڈ کے اندر کھاد کے ڈیر لگا دیے، میکڈونلڈ کے خلاف احتجاج میں کسانوں کا یہ مؤقف ہے کہ میکڈونلڈ مقامی کسانوں سے گوشت نہیں خرید رہا اور غیر یورپی ممالک سے گوشت منگواتا ہے۔
جنوب مغربی فرانس کے کاسٹیلناڈری علاقے میں نوجوانوں کی کسانوں کی یونین کے سربراہ تھامس بونٹ کا کہنا ہے کہ بہت سے کسان مالی طور پر جدوجہد کر رہے ہیں، ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ خوردہ فروش مہنگائی کے دورانیے کے بعد قیمتیں کم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
آسٹریا سے تعلق رکھنے والے گرین یورپی یونین کے قانون ساز تھامس ویٹز(جو ایک کسان اور شہد کی مکھیاں پالنے والے بھی ہیں) کے مطابق ‘حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر کاشتکار اپنی پیداوار سے اپنی زندگی گزار نہیں سکتے، جیسا کہ یورپی یونین نے ماحولیاتی پالیسی نافذ کی ہے تو کسانوں کے بڑھے ہوئے کام اور اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ درآمدی سامان بھی اعلیٰ ماحولیاتی معیار پر پورا اترے۔
مشرقی فرانس میں میوز کے ایک اناج کاشتکار 57 سالہ فلپ تھامس نے کہا ہے کہ ’حکومت ہم پر سخت معیار مسلط کرتی ہے لیکن دوسری طرف ہماری پیداوار محفوظ نہیں ہے۔’