ولی خان، برصغیر کی سیاست کا اہم ستون

جمعہ 26 جنوری 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خان عبد الولی خان برصغیر کی نظریاتی سیاست میں ایک ایسا نام ہے جس کے کردار و افکار کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی بات ہوتی ہے تو ولی خان کی کہی گئی تاریخی باتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک تلخ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ولی خان نے جب یہ حقائق کہے تھے تو ان پر ملک دشمنی اور روسی ایجنٹ کے فتوے بھی لگائے جاتے تھے۔ 1964 کے صدارتی انتخاب میں ولی خان نے اس کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی کہ 1948 میں مسلم لیگ ہی کے دور حکومت میں بابڑہ کے اندوہناک واقعے میں عوامی نیشنل پارٹی کے 600 کے قریب کارکنوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے سردار عبد الرشید کے گھر پہنچے تو سردار عبد القیوم کی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے میں بابڑہ کے 600 شہیدوں کی لاشوں پر چڑھ کر یہاں آیا ہوں لیکن ہم نے ڈکٹیٹر کے بجائے جمہوریت کا انتخاب کیا ہے۔

ولی خان نے بھٹو کی پھانسی کی حمایت کی تھی؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا صرف ظاہری پہلو دیکھا جا رہا ہے اور ولی خان اور اس کی جماعت و ساتھیوں پر بھٹو دور میں ڈھائے گئے مظالم پر نگاہ نہیں دوڑائی جاتی۔ ہماری آج کی کاوش ولی خان کی سیاسی زندگی اور جدوجہد پر مختصر نظر ڈالنا ہے مگر اس بات کے اضافہ کے ساتھ  کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بہرحال عدالتی قتل تھا اور اس حوالے سے کوئی دوسری دلیل ناقابلِ قبول ہے۔

ولی خان 11 جنوری 1917 کو اتمانزئی چارسدہ میں سرحدی گاندھی کہلانے والے خان عبد الغفار خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی اسی آزاد اسلامیہ ہائی سکول سے حاصل کی جس کی بنیاد باچا خان نے رکھی تھی بلکہ ولی خان اس سکولنگ سسٹم کے پہلے طالب علم تھے۔ 1933 میں اُنہوں نے سنیئر کیمرج کیا لیکن انہی دنوں آنکھ میں تکلیف شروع ہو گئی اور پھر ڈاکٹروں نے مزید پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔
1942 میں خدائی خدمت گار تحریک سے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور ابتدائی سال کے دوران پہلی مرتبہ1943 میں ایف سی آر کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ ولی خان کو 15 جون1948 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔ 12 اگست 1948 کو بابڑہ کا افسوسناک واقعہ اسی جلسے کے دوران رونما ہوا جو ولی خان، باچا خان اور دیگر گرفتار خدائی خدمت گار رہنماؤں کی رہائی کے لیے بطورِ احتجاج ہو رہا تھا۔ 1953 میں جس وقت فیڈرل کورٹ نے ولی خان کو رہائی دی اس سے پہلے ولی خان 5 سال، 5 مہینے اور 5 دن قید کاٹ چکے تھے۔ 1954 میں ون یونٹ کے قیام کے خلاف جدوجہد شروع کی گئی جس میں ولی خان بھی باچا خان کے شانہ بشانہ رہے۔ اسی سیاسی مزاحمت کے دوران 1957 میں ایک نئی پارٹی عمل میں لائی گئی جس کا نام نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) رکھا گیا۔

1969 میں ولی خان نیپ کے مرکزی صدر بنے۔ 13 نومبر1968 کو ولی خان کو جنرل ایوب کے خلاف بیانات دینے کے جرم میں پھر گرفتار کیا گیا اور مارچ 1969 میں رہا ہوئے۔ ولی خان کی فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف جدوجہد کبھی نہیں رکی اسی وجہ سے 26 نومبر 1971 کو یحییٰ خان نے نیپ پر پابندی لگا دی۔ بعد میں بھٹو نے پابندی ہٹالی۔ 1975 میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حیات خان شیر پاؤ ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے قتل کا الزام ولی خان پر لگا دیا اور انہیں اسی رات پنجاب کے شہر گجرات کے قریب گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد نیپ کے تمام سرکردہ رہنما اس وقت کے صوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ سے گرفتار ہوئے۔ بھٹو جیسے ہی دورہ امریکہ سے لوٹے تو انہوں نے 9 فروری 1975 کو نیپ پر پابندی لگا دی اور ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر حیدر آباد سازش کیس کا مقدمہ بنایا گیا۔

ولی خان پر 4 بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ 2 خیبر پختونخوا میں اور 2 حملے پنجاب میں مگر ولی خان محفوظ رہے۔ مارچ 1977 میں قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے جن میں سرکاری اعلان کے مطابق پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرلی تھی لیکن پاکستان نیشنل الائنس نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور 10 مارچ 1977 کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اپوزیشن کے منتخب ارکان قومی اسمبلی نے احتجاجاً استعفے دیے اور بھٹو کے خلاف تحریک شروع کی گئی۔ جولائی1977 میں مارشل لا لگانے کے تقریباً 3 ہفتے بعد جنرل ضیاء الحق ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقا ت کے لیے حیدر آباد جیل گئے۔ ان سے مذاکرات کیے اور آخر کا ر حیدر آباد سازش کیس میں ملوث تمام افراد کو رہا کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء کی حکومت کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں ولی خان کو ایک اہم حیثیت حاصل تھی اور اس تحریک کے دوران وہ متعدد بار گرفتار ہوئے۔

ولی خان آخری الیکشن 1993 میں اپنے آبائی حلقے چارسدہ سے لڑے اور ناکامی کے بعد ہمیشہ کے لیے انتخابات سے دستبردار ہوئے اور پارٹی قیادت درویش صفت شاعر و سیاستدان اجمل خٹک کے حوالے کر کہ خود عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد بھی ولی خان کو پارلیمانی سیاست میں واپس آنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں جن میں نمایاں شخصیات میں سے میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے ولی خان کو اپنے حلقے سے انتخابات لڑنے کی پیشکش کی مگر ولی خان نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر کے کہا تھا کہ اگر میرے اپنے حلقے کے لوگوں کا مجھ پر اعتماد نہیں رہا تو کسی اور جگہ سے لڑنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ ولی خان 26 جنوری 2006 کو یہ دنیا چھوڑ گئے لیکن اپنے پیچھے نظریاتی سیاست کی ایک مکمل تاریخ چھوڑ گئے جس کو ہمیشہ بطورِ مثال پیش کیا جاتا رہے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp