ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی بلآخر سیاسی سرگرمیاں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں، تاہم ماضی کے مقابلے میں اس بار یہ مہم کچھ سست ہے، پھر بھی کراچی کے اہم مقامات سیاسی جماعتوں کے پرچموں، امیدواروں اور رہنماؤں کی تصاویر پر مبنی پینا فلکسز سے سج چکے ہیں۔ رات گئے تک گاڑیوں پر اسپیکرز کے ذریعہ ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس بار ایسا کیا ہے کہ بہت کچھ روایت سے ہٹ دیکھنے کو مل رہا ہے؟
کراچی کی قدیم بستی لیاری
پورے کراچی کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات کے حوالے سے روایتی گہماگہمی کراچی کی قدیم بستی لیاری میں دیکھنے میں آرہی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقے 239 میں وہی ماحول ہے جو گزشتہ انتخابات میں بنتا تھا۔ ہر جماعت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے، کارنر میٹنگز کے ذریعے ووٹرز کو راغب کیا جا رہا ہے۔ اس مہم میں ووٹرز کی دلچسپی بھی دکھائی دے رہی ہے۔
کراچی کا ضلع وسطی
کراچی کے ضلع وسطی میں ایم کیو ایم نے اپنی طاقت دکھانے کے لیے ہر طرف اپنے جھنڈے لگائے دیے ہیں، دیگر جماعتیں بھی سرگرم ہیں، لیکن ایم کیو ایم ماضی کی طرح یہ ممکن بنانا چاہ رہی ہے کہ اپنا وجود ممکن بنایا جائے۔
اس بار ضلع وسطی کی خاص بات یہ بھی نظر آرہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنگشنل بھی خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہیں، جہاں تک جماعت اسلامی کی بات ہے تو وہ بھی اپنے روایتی انداز میں الیکشن مہم چلا رہی ہے۔
پی ایس پی اور متحدہ قومی مومنٹ
سال 2018 کے عام انتخابات میں پی ایس پی اور متحدہ قومی موومنٹ الگ الگ سیاسی مہم چلا رہے تھے، جس سے انکی افرادی قوت بھی بٹ چکی تھی، لیکن اس بار دونوں ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے ایک ہو کر بھر پور مہم چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تشدد کے الزامات
ماضی میں ایم کیو ایم پر تشدد کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، اس بار بھی سیاسی کارکنان الزامات لگا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم سیاسی مہم چلانے نہیں دے رہی۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور فی الوقت پیپلزپارٹی سے وابستہ شعیب منصور کی جانب سے ایم کیو ایم پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے الیکشن آفس میں ایم کیو ایم کے کارکنان ن توڑ پھوڑ کی ہے، جس کی ایف آئی آر کٹوائی جا چکی ہے۔
جماعت اسلامی کی مہم اور حافظ نعیم الرحمان
جماعت اسلامی نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ انتخابات چاہے جو بھی ہوں لیکن مہم میں جان ڈالنا اور سیاسی ماحول بنانا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، لیکن اس بار جماعت اسلامی نے پہلی بار کراچی کی سطح پر حافظ نعیم الرحمان کو ٹرمپ کارڈ کی طرح استعمال کیا ہے۔ شہر کے ہر چوراہے میں حافظ نعیم الرحمان کا پوسٹر ضرور دکھائی دے گا۔
رات گئے ہر علاقے میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ حافظ صاحب کی تقاریر چلائی جاتی ہیں، اہم شاہراہوں پر دیگر جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے پرچموں کی بھرمار ہے۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا جماعت سیٹیں نکال پائے گی؟ عوام کا تو ملا جُلا رجحان ہے، لیکن خود جماعت اسلامی پُرامید ہے کہ اس بار ماضی کے مقابلے میں انہیں زیادہ نشستیں ملنے کے امکانات ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی مہم
2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی تھی، لیکن اس بار انہیں کیمپین میں دشواری کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی روایت سے ہٹ کر مہم چلانے پر مجبور ہے۔ تاہم کیمپین میں مشکلات کے باوجود وہ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ایم کیو ایم پر تشدد کے الزامات اس وقت سامنے آئے جب عائشہ منزل پر پاکستان تحریک انصاف کی میلاد کانفرنس پر ایم کیو ایم کے کارکنان نے ناصرف حملہ کیا بلکہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی پر الزام
کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں ایم کیو ایم کے 3 کارکنان جان بحق ہوئے تھے، جس کا الزام پاکستان پیپلز پارٹی پر لگایا گیا تھا، بعد ازاں پولیس نے تفتیش کے بعد بتایا کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ جائداد کا تنازع تھا۔
ایم کیو ایم کی نئی سیاسی چال
ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مذہبی جماعتوں، آل پاکستان مسلم لیگ اور اورنگ زیب فاروقی کی اہل سنت الجماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے۔ بات کی جائے ماضی کی تو ایم کیو ایم کی لبرل پالیسی کی وجہ سے ان جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
امتحان سے پہلے نتیجہ
Related Posts
مجموعی طور پر کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ہر جگہ دیکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو پابندیوں کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں وہ بھی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔
عوامی دلچسپی کے نہ ہونے سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ جب نتیجہ امتحان سے پہلے آجائے تو امتحان کے دن یا امتحان میں کوئی دلچسپی کیوں لے گا۔