ایران کو جواب خطے اور بالخصوص بھارت کے لیے پیغام تھا، انوار الحق کاکڑ

جمعرات 25 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ایران کے حملے کا جواب دینے کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن باقی نہیں بچا تھا، ایران کو جواب دینے کا ایک بنیادی مقصد بھارت کو بھی پیغام دینا تھا کہ پاکستان اپنی سالمیت پر کسی بھی طرح کا کوئی حملہ برداشت نہیں کرے گا۔

جمعرات کو ایک انٹرویو میں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں کشیدگی کم کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان نے جو احتجاج کیا اور جواب دیا اس کا پورے خطے کو پیغام جائے گا۔

ایران ہمارا دوست ملک ہے لیکن اگر آپ کی سالمیت کو چیلنج کرے تو وہ نا قابل برداشت ہوتا ہے، پھر اس کا جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

پاک فوج کا فیصلہ تاریخ کا حصہ بن گیا

انہوں نے کہا کہ ایران کے حملے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے جو بروقت ، لاجواب اور مؤثر فیصلہ لیا وہ یقیناً قابل ستائش ہے اور تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔

اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ایک پولارائزاڈ سیاسی ماحول میں بھی پاک آرمی کے اس جواب کو انتہائی سراہا گیا اور ایک دم پوری قوم پاک آرمی کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔

ایران کو جواب دینا کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں بچا تھا

ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہمارے پاس ایران کے حملے کا جواب دینے کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا تھا، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ ایران کی طرف سے اس حملے کے بعد علاقائی سطح پر، قومی سطح پر اور پوری دُنیا کی نظریں ہم پر جم گئیں تھیں کہ ہم اس معاملے کو کیسے دیکھیں گے؟

 ہم دُنیا کی ساتویں، آٹھویں ملٹری قوت ہیں اور ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے میں کوئی آئے اور آپ پر حملہ کر کے چلا جائے اور پھر آپ جواب بھی نہ دیں یہ کوئی آپشن نہیں بنیا۔

بھارت کو بھی برابری کی سطح پر اسی شدت سے جواب دیا جائے گا

ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہمارا ایران کو یہ جواب خصوصی طور پر بھارت کے لیے ایک پیغام تھا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر خدانخواستہ بھارت کبھی پاکستان پر ایسا حملہ کرتا ہے تو پھر ہمیں اسی شدت کے ساتھ اسے جواب بھی دینا ہوگا اور وہ بھی برابری کی سطح پر دینا ہوگا۔

ایران، عراق جنگ کے دوران کبھی پاکستان تہران کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنا

نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ ایران اور عراق جنگ تھی تو ایران کو دیکھنے چاہیے تھا کہ پاکستان کی طرف سے اسے اس دوران سرحد پر کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ حالانکہ دُنیا نے دیکھا کہ ہمارے زیادہ تر روابط مغربی، مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کے ساتھ تھے لیکن اس کے باوجود ہم نے ایران کے لیے کبھی کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔

ایران کو جواب دینا انتہائی مشکل فیصلہ تھا

انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ملک جس کے ساتھ آپ کے انتہائی اچھے تعلقات ہوں اور وہ آپ کا برادر ملک ہو اور پھر اس کی طرف سے اس طرح کا کوئی حملہ کیا جائے تو یقیناً پھر اسے جواب دینا حکومتوں کے لیے انتہائی مشکل فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے بھی اس کا جواب دینا انتہائی مشکل تھا لیکن اس کا کریڈٹ پاک آرمی کو جاتا ہے کہ حکومت اور پوری قوم کے تعاون سے انہوں نے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان پر حملہ خود ایرانی قیادت پر بے شمار سوالات اٹھا رہا ہے

ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایران کا پاکستان پر حملہ خود ایرانی حکومت کے لیے بے شمار سوالات اٹھا رہا ہے، ہماری طرف سے ایران کی قیادت کا پاکستان پر حملہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ فیصلہ تھا کیوں کہ پاکستان اور ایران کے ساتھ کسی بھی مسئلے کے حل یا بات چیت کے لیے سفارتی سطح سے لے کر دیگر چینلجز موجود تھے۔

ایرانی حملے میں ہمارے شہری جب کہ پاکستان کے حملے میں دہشت گرد مارے گئے

نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ ایران کے ساتھ کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے، اگر ماضی میں کسی شخص کی وجہ سے کوئی مسائل رہے ہیں تو وہ بھی اس نوعیت کے نہیں تھے۔ ایران کے حملے کو اس سطح پر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے حملے میں ہمارے شہری مارے گئے ہیں جب کہ ہمارے حملے میں ایران کا کوئی شہری نہیں مارا گیا ہے بلکہ  پاکستان میں کالعدم تنظیم  بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

ایران کی طرف سے ایسے حملے کی توقع نہیں تھی

دہشت گردوں کے حوالے سے ایران اور پاکستان کے درمیان ڈوزیئر کا بھی تبادلہ ہو چکا تھا، حالاں کہ بلوچستان میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے 110 حملے ہوئے جن میں 229 اموات اور 232 افراد زخمی ہوئے، لیکن ہم نے کبھی ایران پر یا اس کی اجازت کے بغیر کارروائی کرنے کی بات نہیں کی۔ ہمیں ایران کی طرف سے ایسے کسی حملے کی توقع نہیں تھی۔

ایران میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کی موجودگی کا معاملہ ہر حال میں اٹھایا جائے گا

ایک اور سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی ایران سے جو بھی بات ہو گی اس میں اس پر ہر حال میں بات کی جائے گی کہ بی ایل اے یا بی ایل ایف کے جو بھی دہشت گرد ایران میں موجود ہیں، ان کو وہاں کے معاشرے سے کوئی مدد مل رہی ہے یا ریاستی سطح پر ان سے کوئی ہمدردی کی جا رہی ہے تو یقیناً یہ حکومت پاکستان کے لیے نا قابل قبول ہو گی۔ ایران سے یقیناً بات کریں گے کہ ایران کے اندر غیر ملکی کیا کر رہے تھے۔

ایک اور سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ ایران کو شاید اب دفاعی پوزیشن پر جا کر یہ بات بتانا ہو گی کہ ان لوگوں کی وہاں پر موجودگی کیوں تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس جو بھی ثبوت ہیں وہ ہم ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر پیش کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایران کی طرف سے غیر ملکی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی نا ہی اس حوالے سے ایران نے ابھی تک کوئی جواب دیا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جب خاص طور پر آپ کے ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہوں تو غیر ملکی دشمن قوتیں ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں بھی پاکستان کے اندر ایسی افراتفری پھیلانا چاہتی تھیں۔

انوار الحق کاکڑنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک سب چیزیں درست سمت چل رہی ہیں الیکشن کے دوران کسی طرح کی دہشت گردی کے حوالے سے فی الوقت کوئی انٹیلی جنس معلومات نہیں ہیں تاہم اگر ایسا کوئی خطرہ سامنے آیا تو اس کے مطابق فیصلہ سازی کی جائے گی۔ اس وقت تک ایسا کچھ بھی نہیں ہے سیکیورٹی سمیت تمام ادارے درست سمت کام کر رہے ہیں۔

افغانستان اس وقت نان فنکشنل ریاست ہے

افغانستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک نان فنکشنل ریاست ہے، وہاں کوئی ہوائی اڈاہ نہیں ہے، بہت ساری چیزیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں میں ہیں، پھر اس کی کوئی آئینی حیثیت بھی فی الوقت نہیں ہے، اس لیے ایسی حکومت کے ساتھ کوئی بات کرنا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن  اس کے باوجود ہمیں جن خطرات کا سامنا ہے وہ ہم عبوری افغان حکومت کے ساتھ اٹھا چکے ہیں۔

ہمیں افغانستان کی جانب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے، یہاں کی صورت حال تھوڑی سے پیچیدہ ہے کیوں کہ افغان صوبہ پکتیا میں کوئی اور حکومت کر رہا ہے، قندھار میں کوئی اور ہے اور اسی طرح مرکز میں کوئی اور ہے تو ایسی صورت حال میں آپ کس سے بات کریں گے جو مرکزی سطح پر حکومت کی عمل داری پر بات کرے۔

کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان کو روند کر چلے جائے

پاکستان اپنے کسی سنگل ایک شہری کے خلاف بھی کسی جارحیت کو قبول نہیں کرے گا، پاکستان اپنی سالمیت اور شہریوں کے دفاع کے لیے کوئی بھی آپشن استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ آئے اور پاکستان کو روند کر چلا جائے۔ ہماری افواج کی تیاریاں نا قابل تسخیر ہیں۔

الیکشن کے دوران سوشل میڈیا بند نہیں کریں گے

ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک رائے موجود ضرور ہے جس کا اظہار ہم اکثر کرتے رہتے ہیں، اس کا استعمال ذمہ دارانہ ہونا چاہیے،  لیکن الیکشن کے دوران سوشل میڈیا بند کرنے کا ہمارا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حکومتی پالیسی الیکشن میں سب کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔

انٹرنیٹ سروس بند نہیں کی جائے گی

پی ٹی آئی کے آن لائن جلسوں کے دوران انٹرنیٹ کے سست ہونے کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے ہمارا الیکشن کے دورران انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ہاں اس حوالے سے ضرور معلومات لی جائیں گی کہ آیا انٹرنیٹ کے استعمال پر کسی مخصوص جماعت پر پاپندی کا کوئی عنصر تو موجود نہیں ہے یا کوئی اور فنی خرابی کے باعث ایسا ہوتا ہے۔

8 فروری کو الیکشن ہوں گے، شفافیت پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں گے

انہوں نے کہا کہ ان شا اللہ 8 فروری کو الیکشن ہر حال میں ہونے جا رہے ہیں، ان کی شفافیت پر جو بھی سوالات اٹھیں گے وہ یقیناً حکومت، بیوروکریسی اور دیگر تمام اداروں پر اٹھائے جائیں گے۔

میری حکومت وائٹ پیپر جاری کرے گی

ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہماری نگراں حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے اس کے باوجود چاہوں گا کہ میری حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے ایک ’وائٹ پیپر‘ جاری کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp