محبت اور نفرت کے درمیان خانہ بدوش زندگی

جمعرات 9 مارچ 2023
author image

صائمہ زیدی، جرمنی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خون رگوں میں جم رہا تھا اور روح شکستہ تھی۔ آوس شوٹز کے حراستی کیمپ میں گیس چیمبر کے سامنے لگی لمبی قطار میں وہ کمزور سی لڑکی بھی شامل تھی۔ موت اور اس کے درمیان بس ذرا سا ہی فاصلہ تھا کہ زندگی نے اسے ایک بار پھر آواز دی اور وہ دھڑکتے دل کے ساتھ زندگی کی جانب پلٹ گئی۔

اس جواں سال لڑکی کا نام فیمولینا فرانز تھا۔ فیمولینا 21 جولائی 1922میں جرمن علاقے ’بیبرخ امرس‘ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق خانہ بدوش موسیقار خاندان سے تھا۔ ان کے دادا مشہور وائلن نواز اور والدہ گلوکارہ تھیں۔

 فیمولینا فرانز کے خاندان کا تعلق بھی انہی یورپی باشندوں کی سنتی اور روما نسل سے تھا، جن کی نازی دور میں نسل کشی کی گئی تھی۔

اس نسل کشی کا سبب ان کا اصل جرمن باشندوں سے ‘کم تر نسل’ کا ہونا تھا۔

فیمولینا پہلی رومانی یعنی خانہ بدوش خاتون ہیں جنہوں نے ہٹلر کی نام نہاد’تیسری سلطنت‘ کے ماتحت عقوبت خانوں میں ہوئے انسانیت سوز مظالم کی یاد داشتوں کو قلم بند کیا اور جرمن ادب میں بطور مصنفہ اور شاعرہ نام کمایا۔

فلومینا لکھتی ہیں کہ ان کی زندگی کا تخلیقی اور خوشگوار دور اس وقت ختم ہو گیا جب نیشنل سوشلسٹوں کے نسلی جنون کاآغاز ہوا اور یہودیوں کے ساتھ ساتھ سینتی اور روما کی نسل سے تعلق رکھنے والے یورپی باشندوں پر بھی زندگی تنگ کر دی گئی۔

 

فیمولینا نے ہٹلر کے ماتحت عقوبت خانوں میں ہوئے انسانیت سوز مظالم کی یاد داشتوں کو قلم بند کیا۔ (سورس: ہولوکاسٹ انسائکلوپیڈیا)

یہ 1930ءکی دہائی کے اواخر کی بات ہے جب ان کے خاندان کے پاسپورٹ اور موسیقی کے آلات ضبط کر لیے گئے اور انہیں پولینڈ میں آوس شوٹز کے مقام پر بنائے گئے عقوبتی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس حراستی کیمپ نے نسل پرستی کے نام پر بد ترین مظالم کی تاریخ رقم کی۔

جرمن صحافی ایبا روہویڈر کو سن 2004 میں دیے ایک انٹرویو میں فلومینا نے بتایا ’’جب مجھے پتہ چلا کہ میری بہن ریونز بُرک کے حراستی کیمپ میں قید ہے تو میں نے آوس شوٹز کے دفتر میں کام کرنے والے ایک رشتہ دار سے درخواست کی ۔ اس نے 1943ء  کے آخر میں میرا نام ریونز بُرک بھیجے جانے والے قیدیوں کی فہرست میں ڈال دیا اور یوں میں بہن کے پاس پہنچ گئی۔ یہاں مجھے میری بہن اور دو کزنز کے ساتھ  اسلحہ تیار کرنے کے کارخانے میں جبری مشقت کرنا پڑی۔ پھر ہمیں تھورینگن شہر میں ایک ذیلی کیمپ میں بھیج دیا گیا‘‘۔

فلومینا بتاتی ہیں کہ وہ اس کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں تاہم آٹھ روز بعد انہیں نازی اہلکار دوبارہ پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور سخت سزائیں دیں۔ انہیں کئی روز تک کال کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ فلومینا فرانز کو آوس شوٹز کے اس حراستی کیمپ میں ذلت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنے ننگے ہاتھوں سے جلی ہوئی لاشوں کی راکھ کو کھرچنا پڑا اور زخم آلود چھلے ہوئے تلوؤں سے گیس چیمبر کے متعفن فرش پر چلنا پڑا۔

 

28 دسمبر سن 2022 میں سو سال کی عمر میں وفات پائی
فیمولینا فرانز 28 دسمبر 2022 کو 100 برس کی عمر میں فوت ہوئیں۔ (سورس: گیٹانو فاؤنڈیشن، جرمنی)

:موت سے قبل دیا گیا انٹرویو

معروف جرمن خاتون صحافی کرسٹینا ماریا کُفنر کوگزشتہ برس اپنی موت سے چند ماہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں فلومینا نے کیمپ کے سربراہ اور بد نام زمانہ ایس ایس جنرل ہملر کے حوالے سے ایک واقعہ بتایا

ہملر نے کیمپ والوں سے گانے کی فرمائش کی اور یہ بھی کہ اگر اسے گانا پسند نہ آیا تو ہماری سزا موت ہوگی۔ گانے کے لیے میرا انتخاب کیا گیا اور جس گانے کی فرمائش کی اس کے بول تھے ، ’پرانے چشمے پر جہاں سبزہ دور تک پھیلا ہوا ہے‘ خوش قسمتی سے میں یہ گانا جانتی تھی ، سو ہماری جاں بخشی ہوئی۔ شام کو بیرک میں ، میں نے ساتھی قیدیوں سے روتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسا قاتل اور بے رحم شخص اتنے کومل گیت کی فرمائش کرے۔

ریونز بُرک کے عقوبت خانے سے فرانز کو دوبارہ آوس شوٹز منتقل کر دیا گیا تھا۔ جس ویگن پر انہیں لے جایا گیا اس پر سفید چاک سے ’ایمبولینس ٹرانسپورٹ‘ لکھا تھا یعنی انہیں سزائے موت دی جانے والی تھی۔ گیس چیمبر کے سامنے کھڑی جب وہ اپنی باری کی منتظر تھیں تب اچانک ایک ایس ایس عہدے دار نے انہیں مردوں کی راکھ، سامنے کھڑی ہوئی گاڑیوں میں منتقل کرنے کو کہا اور یوں فیلومینا کو ایک بار پھر زندگی نے اپنی جانب بلا لیا۔

موت نے فلومینا کو تو جینے کا ایک موقع اور دیا لیکن ان کے خاندان کو نہیں۔ خود پر گزرنے والے ڈراؤنے خواب جیسے ان واقعات اور اپنے پیاروں کو کھونے کے باوجود فلومینا نے امید اور محبت پر اپنا ایمان قائم رکھا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعے بلکہ عملی طور پر بھی انسانی مساوات کے حق میں، بالخصوص سینتی اور روما کو ہولوکاسٹ میں نشانہ بنائے جانے کو سرکاری سطح پر خاطر خواہ طور پر تسلیم نہ کرنے کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔

سن 1982ء میں ان کے گیتوں کی کتاب ’سیگائینر میرشن‘ یا’جپسی ٹیلز‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ دوسری تصنیف فلومینا فرانز کی آپ بیتی تھی جسے انہوں نے’سویشن لیبے اُنڈ ہاس، آئن سیگوائینر لیبن‘ یا ’ محبت اور نفرت کے درمیان ، ایک خانہ بدوش زندگی‘کا عنوان دیا۔ فیمولینا فرانز کو 1995میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے ربن پر ’کراس آف دی آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازا گیا۔ سن 2001میں یورپین موومنٹ جرمنی کے سول سوسائٹی نیٹ ورک نے انہیں ’فراؤ یوروپاز2001‘(یعنی خاتون یورپ 2001)کا ٹائٹل دیا۔

فرانز نے 28 دسمبر سن 2022 میں سو سال کی عمر میں وفات پائی۔

فیلومینا نفرت سے نفرت کرتیں  جب کہ  امید اور خیر پریقین رکھتی تھیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس یقین کااظہار انہوں نے یوں کیا ’ کیا میں بھی وہی کروں جو دوسروں نے کیا؟ کیا مجھے ان سے نفرت کرنی چاہیے؟ میں نفرت نہیں کرسکتی۔ اگرہم نفرت کرتے ہیں تو ہم ہار جاتے ہیں۔ محبت ہم انسانوں کے لیے ایک عظیم دولت ہے۔ اگر ہمارے پاس محبت نہ رہے تو ہم اپنی روح اور خوبی کو ترک کردیتے ہیں۔ پھر ہم کھو جاتے ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp