بدھ 24 جنوری کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اسٹوڈنٹس کنونشن سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پاکستانی سیاست، فوج کے کردار، پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر دفاعی بجٹ اور سوشل میڈیا کے کردار تک تمام اہم موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ایک بہت جو انہوں نے قابل ذکر کی وہ یہ کہ سوشل میڈیا ایک شیطانی میڈیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے قرآنی حوالہ بھی دیا کہ اگر آپ کے پاس کوئی معلومات لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو۔
ان کے سوشل میڈیا بارے یہ خیالات دراصل اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ فوج بطور ادارہ اس سوشل میڈیا سے کس قدر پریشان ہے۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے پروپیگنڈا سے ادارہ سخت نالاں ہے۔ ان کی سوشل میڈیا بارے رائے اپنے طور پر درست ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز، جھوٹی اور پروپیگنڈا پر مبنی خبروں کی بھرمار ہے اور بظاہر حکومتی ادارے ان کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔
اس پر میں آگے بات کروں گا کہ کیا فیک نیوز کا کوئی توڑ ہے اور سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے پروپیگنڈا کو کیسے ختم کیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری کیسے ممکن ہوئی اور ففتھ جنریشن والے اس سکستھ جنریشن کو روکنے میں ابھی تک ناکام کیوں ہیں۔ آپ سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب ن لیگ کی 2013 والی حکومت کے خلاف تحریک انصاف نے ایک مہم چلائی تو عمران خان کو اداروں کی بھرپور سپورٹ تھی۔ یہ مہم گراؤنڈ کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طریقے سے چلائی گئی اور ایک بیانیہ قائم کیا گیا۔
عمران خان کو پاکستان کا مسیحا دکھایا گیا جبکہ باقی سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو قرار دلوایا گیا۔ اداروں کی طرف سے یونیورسٹی کے طلبا کو انٹرن شپس پر رکھا گیا اور طلبا کو باقاعدہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کی تربیت دی گئی کہ کیسے سوشل میڈیا کو استعمال کرنا ہے۔ اس پورے عمل کو ففتھ جنریشن وار فیئر کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ لیکن اس پوری مہم کا ٹارگٹ عمران خان مخالف سیاستدان تھے۔ گویا عمران حامی نوجوانوں کی پوری ایک فوج تیار ہوگئی۔
یہ ایک Research based evidence ہے کہ اگر کسی کے بارے آپ کے negative sentimentsقائم ہو جائیں تو اس کے بعد چاہے جتنی مثبت باتیں کریں وہ منفی تاثرات ختم نہیں کر پاتے۔ یہی حال عمران خان کے علاوہ موجود پاکستانی سیاستدانوں بشمول نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہوا۔ مسلسل دن رات منفی پروپیگنڈا کے ذریعے ان کو پاکستانی سیاست کے ولن اور عمران خان کو ہیرو ڈیکلئیر کیا گیا۔ پھر جب ان لوگوں کے ہیرو کو نکال کر ان سیاستدانوں کو لایا گیا جو ان کے مطابق ولن تھے تو وہی نوجوانوں کی فوج جن کو ففتھ جنریشن کے لیے تیار کیا گیا تھا باغی ہوگئے۔ اب مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ان بتوں کو کیسے پاش کیا جائے؟ اس جن کو بوتل میں کیسے دوبارہ بند کیا جائے جس کو خود بوتل سے نکالا تھا؟
میرے نزدیک نفرت کا جو بیج ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام پربویا گیا تھا وہ اب اس قدر تناور درخت بن گیا ہے کہ اس کو گرانا اب بہت مشکل ہے۔ ان نوجوانوں کی فوج تیار کرنے میں 3 عوامل کار فرما تھے 1- پیسہ 2- انفارمیشن 3- پروموشن۔ ففتھ جنریشن کی تیاری میں مخصوص صحافیوں اور نوجوانوں پر پیسہ خرچ ہوا، صحافیوں کو انفارمیشن اور خبریں مہیا کی جاتی رہیں جس کا اظہار کئی صحافیوں نے کیا کہ ہمیں ان سیاستدانوں کی کرپشن کی فائلیں دکھائی جاتی تھیں۔ جبکہ اسکے ساتھ ساتھ ان کو بھرپور طریقے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پروموٹ کیا جاتا تھا۔ ان تینوں عوامل کی وجہ سے عام صحافی بڑے نام بن گئے اور عام نوجوان سوشل میڈیا انفلوئنسر بن گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ جنہوں نے ان کو ایک عام نوجوان یا صحافی سے بڑا نام بنایا وہ ان کو قابو کیوں نہیں کرپا رہے؟ میرے نزدیک ان لوگوں کو تیار کرنے میں جو 3 عوامل استعمال ہوئے تھے وہ اب اس تربیت یافتہ نوجوان کی ضرورت نہیں رہے کیونکہ یہ اب self sustainable economic model کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب یہ تینوں چیزیں یعنی پیسہ، انفارمیشن اور پروموشن replace ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر monetization نے پیسے کی ضرورت ختم کر دی ہے۔ اب تو ٹوئٹ کرنے کے بھی پیسے ملتے ہیں۔ انفارمیشن اب میڈیا سے بھی پہلےسوشل میڈیا پر خود پہنچ جاتی ہے جبکہ پروموشن کے لیے algorithms نے مسئلہ حل کر دیا ہے کیونکہ انکی فالونگ پہلے ہی اتنی ہوچکی تھی کہ algorithms ان کو خود بخود اب پروموٹ کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو اب ففتھ جنریشن والوں کی کوئی ضرورت ویسے ہی نہیں رہی۔
اب سیاسی طور پر ان کو کنٹرول کرنا بہت مشکل کام ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کو کیسے ہینڈل کیا جائے؟ میرے نزدیک اس کے 2 حل ہیں۔ نمبر ایک سوشل میڈیا پر جھوٹی اور پروپیگنڈا پر مبنی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف موجودہ قوانین کے تحت شفاف طریقے سے قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اگر کوئی جھوٹی خبر پھیلاتا ہے تو ہتک عزت یا پیکا ایکٹ کے تحت قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر مین اسٹریم میڈیا پر 99 فیصد مواد جو کہ صرف اور صرف سیاسی بحث پر مبنی ہوتا ہے اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ میڈیا پر سیاسی بحث کو کم کر کے سماجی، معاشی اور دوسرے موضوعات کو زیر بحث لایا جائے۔ لوگوں کی توجہ سیاست سے ہٹا کر دوسرے موضوعات کی طرف مبذول کروانی چاہیے۔