کراچی میں انتخابات کے دوران تصادم کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، سیاسی جماعتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن نتائج جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں، انتخابی مہم کے آغاز سے پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں تصادم کی خبریں دیکھنے میں آئیں لیکن اب معاملہ دھمکیوں تک پہنچ چکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف جو 2018 کے انتخابات کے موقع پر کراچی کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی، اس کے رہنما اور کارکن بھی یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انتخابات سے قبل انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں۔
مزید پڑھیں
گزشتہ روز کیا ہوا؟
گزشتہ روز بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی ریلیاں نکالنے کی کوشش کی گئی، پاکستان تحریک انصاف کراچی کی قیادت کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ انہوں نے شہر کے 2 مقامات پر انتظامیہ سے ریلی کی اجازت مانگی تھی جو نہیں ملی، جس کے بعد مجبوراً تین تلوار پر کارکنوں کو جمع ہونے کا کہا گیا۔
دوسری جانب انتظامیہ سے اجازت نہ ملنے پر پولیس نے نہ صرف تین تلوار آنے والے راستوں پر پولیس تعینات کی بلکہ تین تلوار پر بھی پولیس کی بھاری نفری موجود تھی، کارکنوں کے جمع ہوتے ہی پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں تصادم سے نہ صرف پی ٹی آئی کارکن بلکہ میڈیا نمائندے اور پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
بعد ازاں میڈیا نمائندوں کی جانب سے پولیس کے خلاف مقدمہ کے اندراج کی درخواست دی گئی جبکہ آج پولیس کی جانب سے رہنما تحریک انصاف خرم شیر زمان سمیت دیگر کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا تصادم
کراچی کے پرانے محلے ناظم آباد نمبر 2 میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوگئے، احتجاجاً دو گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا، اس واقعہ کی ویڈیو میں سیاسی کارکن ایک دوسرے پر کرسیوں سے حملہ کرتے دکھائی دیے، بعد ازاں اسپتال انتظامیہ نے تصدیق کی کہ ہلاک ہونیوالے شہری کی موت سر میں گولی لگنے کے باعث ہوئی، یعنی اس تصادم میں اسلحہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔
ڈی آئی جی پولیس کراچی ویسٹ کیا کہتے ہیں؟
ناظم آباد میں ہونے والے اس جان لیوا تصادم پر ڈی آئی جی پولیس کراچی ویسٹ عاصم قائم خانی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جو قانونی ایکشن بنتا ہے وہ ہوگا۔ ’ریاست کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوگا اسے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
ایم کیو ایم کا موقف
ایم کیو ایم کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال نے اس واقعہ کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ نذر آتش ہونیوالی گاڑیوں پر پی پی والے آئے تھے، ان کا کہنا تھا انہوں نے اس شہر میں را سے مقابلہ کرکے اس کے تسلط کو بغیر ہتھیاروں کے ختم کیا ہے۔
’آخری بار کہہ رہاہوں اب اپنے کارکنوں پر خراش نہیں آنے دوں گا، مرنا ہمارے لیے مسئلہ نہیں ہے، موبائل نے دہشتگردوں کو پکڑا کیوں نہیں، فراز کو موبائل اسپتال میں لے کر نہیں گئی۔‘
پیپلز پارٹی کا موقف
پیپلز پارٹی ضلع وسطی کے صدر مسرور احسن نے ناظم آباد میں پیش آنے والے واقعے کی بھرپور مذمّت کرتے ہوئے شہر کے امن کو تباہ ہونے سے بچانے کی درخواست کی۔ ’ایک بار پھر کراچی کےامن کو تباہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے، ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے پیپلز پارٹی کے کارکنان پر تشدد اور جان لیوا حملہ کیا، اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گاڑیاں بھی جلائی گئیں۔‘