لوگ کہتے ہیں کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔ اس میں انصاف نہیں ہے، کرپشن اور دو نمبری اوپر سے گرتی پھسلتی اب ٹھیلے اور رکشے والی کی سطح تک آن پہنچی ہے۔ ریاست کا لوگوں پر اور لوگوں کا ریاست کے ڈیلیوری سسٹم پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ نفسانفسی انفرادی سے ترقی پا کے اجتماعی ہو گئی ہے۔ ہر فرد اور ادارہ اپنے تئیں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے قانون بھی اس کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ قانون کی طاقت ہونی چاہیے اس کی ناطاقتی ہی اس کی سزا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ یہ سسٹم ہر گز ناکارہ نہیں بلکہ جنہوں نے بنایا ہے انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کے ہی بنایا ہے۔ اس میں جو بھی اتھل پتھل نظر آتی ہے وہ پیٹ بھروں کی آپس کی رسہ کشی کے سبب ہے۔ لڑائی اس پر نہیں کہ کون عوام نواز اور کون عوام دشمن ہے۔ لڑائی بندربانٹ پر ہے۔ باری پر ہے، اختیارات کی لپاڈکی پر ہے۔ کس کو پاکستان عرف مالِ غنیمت میں سے کتنا حصہ ملے گا یا نہیں ملے گا لڑائی اس کی ہے۔
یہ وہ گیم ہے جس سے عام آدمی باہر ہے۔ اس کو اتنا باہر کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہر بنیادی حق کا زرا سا ٹکڑا نصیب ہونے کو بھی اپنا آئینی و قانونی استحقاق نہیں سمجھتا بلکہ مٹھی برابر ریلیف کو بھی اوپر والوں کا احسان اور خدا ترسی سمجھ کے کورنش بجالاتا ہے۔ اگر اس عام آدمی کی کوئی عزت ہے تو محض آئین نامی کتاب کے پہلے صفحے کے پہلے پیرے میں ہے۔ خود آئین کی بھی اس قدر عزت ہے جتنی اس کاغذ کی جس میں تندور والا روٹی لپیٹ کے دیتا ہے۔
بھولے آدمی کو آخری امید عدلیہ سے تھی مگر عدلیہ اشرافیہ کے آپس کے جھگڑے نمٹانے سے فرصت پائے تو پینشن زدگان، قبضہ گزیدگان اور مقتولوں کے ورثا کی پتھرائی آنکھیں دیکھ پائے۔ 16 لاکھ سے زیادہ فائلیں مختلف عدالتوں میں خاک چاٹ رہی ہیں۔ اور کیا ثبوت چاہیے۔
سسٹم اتنا پرفیکٹ ہے کہ یہ فیصلہ بھی ڈنڈا بردار کرتے ہیں کہ مجھے کسے ووٹ دینا ہے اور کون میرے ووٹ کے قابل نہیں رہا۔ میں فانٹا پینا چاہتا ہوں مگر میرے سامنے صرف کوک اور پیپسی رکھ دی گئی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مجھے سوچ سمجھ کے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔
مجھے بتایا جاتا ہے کہ ہر پارٹی کا منشور بہت غور سے پڑھوں اور پھر فیصلہ کروں کہ میری قسمت کون سنوارے گا۔ پر مجھے یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جس کو میں نے اپنی قسمت سنوارنے کے لیے منتخب کرنا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ تو کسی اور قسمت ساز کے ہاتھوں میں ہے۔ گویا مجھ غلام کو بس اتنا حق ہے کہ اپنے سے نسبتاً بہتر غلام کا انتخاب کر سکوں۔
میں ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اگر کوئی بھی منشور اٹھا کے پڑھنا شروع کروں تو اس میں سوائے میرے بنیادی حقوق کے تحفظ کے وعدے کے ہر ہوائی وعدہ موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 54 برس پہلے بھی روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ تھمایا گیا تھا۔ آج بھی مجھے سڑک، پانی، بجلی، اسپتال، چھت اور اڑھائی سے 300 یونٹ مفت بجلی کا نصف صدی سے نامکمل خواب بیچا جا رہا ہے۔ جبکہ اس نصف صدی میں اسی نظام نے ان سب ککھ پتیوں کو کروڑ اور ارب پتی بنا دیا کہ جس نظام کو آج بھی ناقص، فرسودہ اور عوام دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔
کیا کسی منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ ہم برسرِ اقتدار آ گئے تو نوکریاں صرف میرٹ پر ملیں گی اور میرٹ کا تعین ہم نہیں بلکہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کا غیر جانبدار بورڈ کرے گا؟
کیا کسی منشور میں لکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آ گئے تو اسکول سے باہر جوتیاں چٹخانے والے 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کی تعداد اگلے 5 برس میں گھٹا کے کم ازکم آدھی کر دیں گے۔ کیا کسی منشور میں یہ لکھا ہے کہ ہم صحت اور تعلیم کا بجٹ دفاعی بجٹ کے مساوی کر دیں گے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جبری گمشدگیوں کی لعنت ختم ہو اور بھیانک مجرم کو بھی نافذ قوانین کے مطابق سزا ملے اور جو جو بھی بالائے آئین انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے اسے بھی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
کیا کسی منشورمیں ہے کہ اب تک پاکستان میں جتنے بھی تحقیقاتی کمیشن بنے ہیں ان سب کی رپورٹ شائع کر دی جائے گی۔ کیا کسی منشور میں ہے کہ کنسٹرکشن انڈسٹری اور لینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبوں کو ریگولیٹ کیا جائے گا اور جو جو بھی اس ریگولیشن کے عمل کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرے گا اس سے اس کے پراجیکٹ کی مالیت کے مساوی جرمانہ وصول کر کے متاثرین میں تقسیم کیا جائے گا۔ کیا کسی منشور میں ہے کہ زراعت سمیت ہر شعبہ ٹیکس دے گا۔
کیا کسی منشور میں ہے کہ لاکھوں پینشنرز کو مرنے سے پہلے واجبات کی 100 فیصد ادائیگی یقینی بنائی جائے گی اور پینشنرز کو قطار میں لگ کے ہر ماہ اپنا استحقاق ثابت نہیں کرنا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ذمہ دار اداروں اور اہلکاروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا۔
کیا کسی منشور میں ہے کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق صوبوں کا ہو گا اور وفاق ان صوبوں کے وسائل استعمال کرنے کی بابت ہر 5 برس بعد ایک تجدیدی معاہدہ کرے گا۔ کیا کسی منشور میں ہے کہ 2 ایوانی پارلیمان کے ایوانِ بالا کو ایلیٹ کلب کے طور پر برقرار نہیں رکھا جائے گا بلکہ سینیٹ کو بھی بجٹ کی منظوری میں ایوانِ زیریں کے مساوی اختیارات دینے کے لیے ضروری آئینی ترامیم کی جائیں گی۔
اگر کسی ایسی جماعت کے منشور میں مندرجہ بالا نکات میں سے آدھے بھی شامل ہوں تو مجھ بے خبر کو تعلیم کیا جائے۔ فی الوقت تو یہی نظر آ رہا ہے کہ ووٹر کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لیے بھیک نما نعرے دان کیے جا رہے ہیں۔ اس کی انا کو اس سطح تک لایا جا رہا ہے کہ اس کے پاس سوائے اس کے کوئی چوائس نہ بچے کہ تم 8 فروری کو قیمے والے نان کو ووٹ دو گے یا بریانی کی پلیٹ کو یا پھر اپنی گلی میں مہینوں سے کھڑے گندے پانی کی نکاسی کا وعدہ کرنے والے امیدوار کو۔
یہ سسٹم بنانے والوں نے بہت غور و فکر اور تحقیق کے بعد بنایا ہے۔ اس کو جو ہلکا لے گا وہ خود ہلکان ہو جائے گا۔