پارٹی کے سینئرز سے اچھا تعلق ہے مگر جنریشن گیپ کا سامنا ہے: مریم نواز

جمعرات 9 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت سے بہت اچھا تعلق ہے مگر انہیں جنریشن گیپ کا سامنا ہے۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کی طرح وہ بھی سیاسی ‘انکلز’ سے ناخوش ہیں تو مریم نواز نے کہا کہ ‘اتنی اپوزیشن کا سامنا شاید مجھے نہیں، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت اس بات کو سمجھتی ہے، لیکن مجھے جنریشن گیپ کا سامنا ضرور ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں جو نواز شریف کے ساتھی ہیں وہ سینئرز ہیں اور ان سے چچا اور تایا والا تعلق ہے۔ ‘میں انہیں اس وقت سے جانتی ہوں جب میں چھوٹی ہوا کرتی تھی، ان سب کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ ہمارے خاندانی تعلقات ہیں۔ یہ ارتقا کے مراحل ہیں اور انہیں یہ مان لینا چاہیے۔ میرے سینئرز مجھے مانتے بھی ہیں اور میری رہنمائی بھی کرتے ہیں’۔

مریم نواز نے کہا کہ ‘جو لوگ مجھے ذاتی طور پسند نہیں کرتے انہیں بھی ادراک ہے کہ جماعت کو نئے خون اور نئے جذبے کی ضرورت ہے۔ چاہے احسن اقبال صاحب ہوں، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف یا شہباز شریف صاحب، مجھے گاہے بگاہے سب سے رہنمائی ملتی ہے۔ جتنا وہ مجھ سمیت نوجوان قیادت کو پروان چڑھائیں گے اتنا ہی پارٹی کے لیے سودمند ہے’۔

‘مجھے ہر بات میں والدہ کی یاد آتی ہے’

مریم نواز کا کہنا تھا کہا کہ ان کی والدہ ان کی زندگی کا محور تھیں۔ ‘جس طرح والدہ نے میری تربیت کی وہ ان کا سرمایہ حیات ہے۔ میری زندگی کی ہر چیز میں ان کی یاد شامل ہے۔ مجھ میں 99 فیصد میری والدہ ہیں۔ جب میں سیاست میں آئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو خود کو اور دل و دماغ کو مضبوط رکھنا ہوگا، یہاں ہر قسم کے حملے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں کبھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں، یہ کمزوری کی نشانی ہیں۔ آج وہ نہیں ہیں لیکن مجھے ہر بات میں ان کی یاد آتی ہے’۔

‘جنید صفدر ابھی صرف کاروبار سنبھالیں گے’

ہم نے مریم نواز سے ان کے بیٹے جنید صفدر سے متعلق پوچھا کہ کیا وہ سیاست میں آئیں گے تو انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے اسے کہا ہے میں اور والد سیاست میں ہیں تم کاروبار سنبھالو اور خاندان کو وقت دو۔ ابھی یہی ذمہ داریاں اس کی توجہ کا مرکز ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ جنید صفدر کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے ہیں۔ جو لوگ 10، 12 برس دیارِ غیر میں گزارتے ہیں پھر وہ وہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جنید نے کہا کہ اس نے اپنے وطن واپس آنا ہے۔ ‘مجھے خوشی ہے کہ وہ لوگوں اور اپنی مٹی میں رہنا چاہتا ہے’۔

موروثی سیاست سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا نقطہ نظر اہمیت کا حامل نہیں، یہ عوام کی خواہش ہے کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں۔ وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ آسمان سے فیصلہ آتا ہے اور پھر زمین پر اللہ کے نائب جو عوام ہیں، یہ ان کا فیصلہ ہے۔ وہ کس کے بیٹے اور کس کی بیٹی کو پسند کرتے ہیں، یہ ان کا فیصلہ ہے۔ آپ کے والدین آپ کو لانچ تو کرسکتے ہیں لیکن کسے قبول کیا جائے گا اور کسے رد کیا جائے گا، اس کا فیصلہ عوام کرتے ہیں اور عوام کا فیصلہ درست ہوتا ہے’۔

مریم نواز کونسی کتابیں پڑھتی ہیں؟

مریم نواز کا کہنا تھا کہ انہوں نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور متنوع موضوعات پر بیک وقت کئی کتابیں پڑھتی رہتی ہیں۔

‘ویسے مجھے تاریخ اور فکشن سے زیادہ لگاؤ ہے۔ فکشن کے ایک دو لکھاری جو حقیقت کے بہت قریب ہیں انہیں زیادہ پڑھتی ہوں، جیسے برازیل کے لکھاری پاؤلو کوہلو ہیں۔ ان کے ناولوں میں روحانی چاشنی بھی ہوتی ہے۔ میں نے ان کا ناول (Al Chemist) اور (Warrior of the Light) بار بار پڑھا ہے۔ اسی طرح ترکش لکھاری ایلک شفق کو شوق سے پڑھتی ہوں۔ ان کی (Forty Rules Of love) میری پسندیدہ کتاب ہے۔

ان کی ایک اور کتاب (Ten Minutes 38 Seconds in This Strange World) میں مجھے اس کا مرکزی خیال بہت پسند ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب ہے (The Seat of the Soul) مجھے بہت پسند ہے۔

پھر متحدہ برِصغیر کی تاریخ کا احاطہ کرتی کتاب (Twilight in Delhi) بھی مجھے پسند ہے جسے احمد علی نے لکھا ہے۔ اسی طرح ایک اور کتاب (A Tale of Two Cities) بھی مجھے پسند ہے۔ ایسے ناول جن کا پس منظر تاریخ سے جڑا ہو وہ میں شوق سے پڑھتی ہوں۔

آئیرش شاعر Seamus Heaney نے آزادی کے لیے شاندار شاعری کی ہے۔ یہ موڈ پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کیا پڑھا جائے۔

‘جیل میں ساری اردو کتابیں پڑھ ڈالیں’

مریم نوازنے کہا کہ جب میں کوٹ لکھپت جیل میں تھی تو وہاں کی لائبریری میں انہیں اردو ناول پڑھنے کا موقع ملا۔ ‘وہاں موجود اردو شاعری اور ناول کی تمام کتابیں میں نے پڑھ لی تھیں۔ وہاں وقت بہت تھا اور کافی مطالعہ ہوگیا۔ تو اس اعتبار سے وہ بڑا اچھا تجربہ تھا اور میں ان دنوں کو یاد کرتی ہوں۔ احمد فراز، ساحر لدھیانوی، پروین شاکر اور امجد اسلام امجد کو شوق سے پڑھا۔ امجد اسلام امجد کا انتقال ہوا تو ان کی شاعری دوبارہ نکھر کر سامنے آئی’۔

مریم نواز نے کہا کہ انہیں پنجابی، اردو اور سرائیکی زبان کا بہت شوق ہے اور وہ سرائیکی شاعری بھی پڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ فلفسیانہ کتابیں بھی شوق سے پڑھی ہیں جن کا فلسفہ زندگی میں کام آتا ہے۔ Francis Bacon اور Friedrich Nietzsche کو بھی شوق سے پڑھا۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی لکھاری ہیں جنہیں پڑھا اور ان سب سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp