خواجہ سعد رفیق اور لطیف کھوسہ میں تگڑا مقابلہ ہوگا؟

بدھ 31 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ٹوٹل ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 45 ہزار 763 ہے جس میں 1 لاکھ 97 ہزار 264 مرد اور 1 لاکھ 48 ہزار 499 خواتین ووٹرز ہیں، اس حلقے میں ڈی ایچ اے، کینٹ، بھٹہ چوک، غازی روڑ، والٹن روڑ اور فیروز پور روڑ کا کچھ حصہ شامل ہے۔

لاہور کے حلقہ این اے 122 سے مسلم لیگ ن کے معروف امیدوار خواجہ سعد رفیق الیکشن لڑ رہے ہیں، اور اس علاقے سے 3 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل 2018 کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 131 تھا، اور یہاں دوبارہ گنتی ہوئی تھی۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردار لطیف کھوسہ، سعد رفیق کو ایک تگڑا مقابلہ دینے کے لیے تیار ہیں، جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے ڈاکٹر زرقا الیکشن لڑ رہی ہیں۔

خواجہ سعد رفیق اور لطیف کھوسہ انتخابی مہم کیسے چلا رہے ہیں؟

 حلقہ این اے 122 میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، خواجہ سعد رفیق کارنر میٹنگز کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کی قیادت کررہے ہیں۔ جبکہ لطیف کھوسہ اس طرح آزادنہ مینٹنگ کرنے سے قاصر ہیں، وی نیوز سے بات کرتے ہوئے لطیف کھوسہ کے بیٹے خرم لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کا ووٹر بہت زیادہ ہے لیکن ہمیں آزادنہ مہم نہیں چلانے دی جا رہی ہے۔ ہم مختلف طریقوں سے مہم چلا رہے ہیں، ہمارے کارکن رات گئے اس حلقے میں کارنر میٹگنز کرتے ہیں کیوں کہ دن کے اجالے میں پی ٹی آئی والوں کو مہم چلانے نہیں دی جارہی ہے۔

’ 8 فروری کو امید ہے کہ عوام عمران خان کے حق میں فیصلہ دے گی، حلقے کی عوام کافی باشعور ہے وہ عمران خان سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ انہیں بھی امید ہے اور ہمیں بھی امید ہے کے ان برے حالات میں بھی ہم خواجہ سعد رفیق کو ہرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگرچہ خواجہ سعد رفیق یہاں سے 3 مرتبہ جیت چکے ہیں لیکن انکو اس مرتبہ اتنی آسانی سے نہیں جیتنے دیں گے‘۔

دوسری جانب خواجہ سعد رفیق کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے اور علاقہ مکین مسلم لیگ ن کو ویلکم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں خواجہ سعد رفیق نے اپنے 3 اداوار میں حلقے کے کافی مسائل حل کیے ہیں اور ابھی بھی والٹن روڈ کے ساتھ تعمیراتی  کام جاری ہیں۔

 2018 کے الیکشن کی صورت حال

 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 131 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا تھا، عمران خان نے 84 ہزار 313 ووٹوں کے کم فرق سے کامیابی حاصل کی تھی اور سعد رفیق کو شکست ہوئی تھی، انہوں نے 83 ہزار 633 ووٹ حاصل کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار سید مرتضیٰ حسن اور پیپلز پارٹی کے امیدوار عاصم محمود نے بھی بالترتیب 9,780 اور 6,746 ووٹ حاصل کیے تھے۔

عمران خان کی جانب سے میانوالی میں اپنی نشست برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد اکتوبر 2018 میں این اے 131 میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں پی ٹی آئی نے ہمایوں اختر خان کو امیدوار بنایا تاہم سعد رفیق 60 ہزار 476 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جبکہ ہمایوں اختر نے 50 ہزار 445 ووٹ حاصل کیے تھے۔

 2013 کے الیکشن میں کون جیتا تھا؟

2013 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 125 جو ابھی حلقہ این اے 131 ہے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سعد رفیق نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے 1 لاکھ 23 ہزار 93 ووٹ حاصل کیے تھے۔ خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے حامد خان کو شکست دی تھی، جنہوں نے 83 ہزار 190 ووٹ حاصل کیے تھے۔ دھاندلی کے الزامات نے 2013 کے انتخابات کو متاثر کیا، جس سے پی ٹی آئی کو 126 دن کا دھرنا دینا پڑا۔

یہ تنازعہ کمیشن کی جانب سے این اے 125 میں ووٹروں کی تصدیق کے مسائل کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کرنے کا باعث بنا۔  تاہم، سعد رفیق نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس نے بالآخر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس حلقے میں سعد رفیق کی جیت کی تصدیق کی۔

 2008 کے انتخابات کا معاملہ

سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد ہونے والے 2008 کے عام انتخابات میں 8 فروری 2008 کو سعد رفیق اس حلقے سے 70 ہزار 752 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے محمد نوید چوہدری 24 ہزار 592 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے جبکہ ہمایوں اختر خان نے اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف 13 ہزار 702 ووٹ حاصل کیے تھے۔

 واضح رہے سابق صدر پرویز مشرف کی نگرانی میں 2002 کے انتخابات کے دوران، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) جیسی سیاسی جماعتوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، کیونکہ ان کی رہنما بینظیر بھٹو شہید اور  نواز شریف بالترتیب جلاوطنی میں تھے۔ امین فہیم کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے حصہ لیا جبکہ مسلم لیگ ن نے جاوید ہاشمی کی قیادت میں انتخابات میں مقابلہ کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp