الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے تحت، تمام سیاسی پارٹیوں کو، جنہیں انتخابات 2024 کے لیے انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں، جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں کی 5 فیصد نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے۔
لیکن اس بار انتخابات میں کس پارٹی نے کتنی فیصد خواتین کو جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹس دیے۔
اس حوالے سے اگر مسلم لیگ نون کی بات کی جائے تو اس نے پورے ملک میں 196 جنرل نشستوں پر پارٹی امیدواروں کو ٹکٹس جاری کیے ہیں، جن میں سے خواتین ٹکٹ ہولڈرز کی تعداد 7 فیصد ہے، یوں مسلم لیگ نون الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد قانونی تقاضے پر پورا ہدایت پر پورا اتری ہے۔
مزید پڑھیں
پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں جنرل نشستوں پر 266 ٹکٹس جاری کیے ہیں، جن میں الیکشن ایکٹ کی مذکورہ شق پر عملدرآمد کرتے ہوئے 7 فیصد خواتین کو جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے جنرل نشستوں پر 219 امیدواروں کو ٹکٹس دیے، جن میں سے 5 فیصد پارٹی ٹکٹس خواتین کو جاری کیے گئے ہیں، یوں اگر دیکھا جائے تو ملک کی سابق حکمراں جماعتوں نے الیکشن ایکٹ کی اس شق پر مکمل عملدرآمد کو ممکن بنایا ہے۔
حیرت انگیز طور پر اپنی پارٹی میں جمہوری روایات کی پاسدار جماعت اسلامی نے یوں تو مجموعی طور پر 243 امیدواروں کو پارٹی ٹکٹس جاری کیے، تاہم ان میں خواتین امیدواروں کی نمائندگی صرف 3 فیصد ہی ممکن بنائی ہے، اگر الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 پر عملدرآمد کی بات کی جائے تو اس ضمن میں جماعت اسلامی نے الیکشن ایکٹ کی شرط سے روگردانی کی ہے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق 5 فیصد خواتین کی نمائندگی ضروری ہے لیکن بہت سی سیاسی جماعتیں خواتین کی 5 فیصد نمائندگی کو یقینی نہیں بنا پائی ہیں۔
’اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں خواتین کو پروموٹ کرنے کا کلچر ہی موجود نہیں ہے، حتٰی کے بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی دیکھا جائے تو وہاں بھی صرف سیاسی خاندان کی خواتین ہی نظر آتی ہیں، عام خواتین ورکرز کی تعداد بہت کم ہے، ان کو بہت سی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق اگر الیکشن کمیشن اس پر سنجیدگی سے ایکشن لیتا ہے تو اس سے پاکستان میں خواتین کی سیاست میں نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ آئین اور قانون خواتین کو یہ حق فراہم کرتا ہے۔ ’اس پر عملدرآمد ہونا بھی چاہیے اور الیکشن کمیشن کو اسے یقینی بھی بنانا چاہیے۔‘
سیاسی تجزیہ کار محمل سرفراز کے مطابق سیاسی جماعتوں کی جانب سے 5 فیصد خواتین کو نمائندگی نہ دینے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ہمارا پدر شاہی نظام ہے، اس بار سیاسی جماعتوں نے تقریبا 4.77 فیصد خواتین کو جنرل سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹس دیے ہیں۔
’جس پر الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے کیونکہ جب تک سیاسی جماعتوں کو خواتین کی 5 فیصد نمائندگی نہ دینے کے نتائج کے بارے میں علم نہیں ہوگا اس وقت تک کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا۔‘
محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی صنعت کو اٹھالیں خواتین کو برابر مواقع نہیں ملتے، اس لیے جب تک سیاسی نظام میں خواتین کی شمولیت نہیں ہو گی اور انہیں سیاست میں مردوں کے برابر حقوق نہیں ملیں گے اس وقت تک ہمارے معاشرے میں بھی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کیسے مل سکتے ہیں۔
’اس لیے پالیسی سازی میں خواتین کی شرکت بھی بہت ضروری ہے، چاہے وہ پھر پالیسی سازی ہو یا پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرنے کی بات، اگر پارٹی کا ووٹ ہے تو وہ ووٹ ان خواتین کو بھی مل جائے گا۔ لیکن بہت سی سیاسی جماعتیں 5 فیصد نمائندگی کو پورا کرنے کے لیے خواتین کو ان حلقوں سے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے ہیں۔‘
محمل سرفراز کے مطابق سیاسی جماعتوں میں ایک یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ جب مخصوص نشستیں خواتین کے لیے ہیں تو جنرل سیٹیوں پر خواتین کو کم ٹکٹ دیے جائیں۔ ’ایک ایم این اے اور ایم پی اے کا کام ہوتا ہے قانون سازی کرنا اور خواتین سیاستدانوں کا اس ضمن میں بہت اہم اور اچھا ریکارڈ رہا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو اہمیت نہیں دیتیں اور نہ ہی وہ چاہتی ہیں کہ خواتین صیحح معنی میں آگے بڑھیں۔‘
کیا الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتا ہے؟
اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے تحت کسی قسم کی کارروائی کا کوئی حق نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کو فہرست مرتب کرنی چاہیے کہ کون سی پارٹی 5 فیصد خواتین کی نمائندگی کو یقینی نہیں بنا رہی۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے ترجمان مدثر رضوی نے بتایا کہ یہ دوسرے عام انتخابات ہیں جس میں خواتین کی 5 فیصد نمائندگی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ضروری قرار دیا گیا ہے، 2018 کے عام انتخابات میں بھی خواتین نے حصہ لیا تھا اور اس انتخابات میں بھی بہت سی خواتین جنرل اور ریزرو سیٹوں پر امیدوار ہیں۔
’ابھی تک بہت سی سیاسی جماعتیں اسے یقینی نہیں بنا پائی ہیں جو کہ ضروری ہے، تاہم اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں بہت سے معاملات میں رکاوٹوں کا سامنا ہے، خواتین کی ویسے بھی سیاسی شمولیت کم ہے اور سیاسی جماعتیں ان افراد کو ترجیح دیتی ہیں جو انہیں الیکشن جیت کر دے سکیں۔‘
مدثر رضوی کے مطابق چونکہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کا عمل ابھی شروع ہوا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اب بہت سی خواتین انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں، مخصوص نشستوں پر بھی بہت سی خواتین منتخب ہوتی ہیں۔ ’۔۔۔اس حساب سے کیا معلوم اگلے الیکشن تک سیاسی جماعتیں 5 کے بجائے 15 فیصد خواتین کو ٹکٹس جاری کر رہی ہوں۔‘