میں نے دیکھا ہے سیاسی پارٹی کے ساتھ نسبت بھی پیدائشی مذہب اور پہلی محبت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی انسیت سے جان ہی نہیں چھوٹتی۔ آپ چاہے جتنا بھی پڑھ لکھ جائیں، رشی منی ہو جائیں، فیثا غورث ہوجائیں، ارسطو یا افلاطون، آئن سٹائن یا مادام کیوری بن جائیں۔ پچھلے ازم، مذہب، محبت میں جاہل رہ کر ، اگلے کے عالم و عارف و فرزانہ بن جائیں۔ دلیل و منطق و فلسفہ میں یگانہ ہو جائیں۔ پچھلے ازم، مذہب، محبت کی کسک اور اس سے عقیدت کے اشارے، آپ کے بے ساختہ حرکات و سکنات و اظہارات سے ہویدا ہو ہی جاتے ہیں۔
اکمل گھمن کا ایک دوست ہوا کرتا تھا، اب بھی ہے لیکن اب اس سے رابطہ نہیں۔ اکمل ہی کے وسیلے سے ہماری بھی آشنائی ہوگئی اس سے۔ ریڈیو لاہور کے میرے دفتر میں محفلِ یاراں سجتی۔ اکمل گھمن، فرحان مشتاق، نعیم ربانی اور فواد بیگ تو مستقل رکن تھے اس بیٹھک کے۔ لیکن کبھی کبھی مہمان رکن بھی شامل ہو جاتا تو معاشرے کی مختلف پرتوں پر دقیق مکالموں کی بیٹھک لگتی۔ مذہب و معیشت و معاشرت و فلسفہ و سیاست و ادب کے نظریات، مسائل، ان کا پس منظر اور اس سب کی روشنی میں ان کا ممکنہ حل ان بیٹھکوں میں اپنے علم کی آواز و آہنگ کو بلند رکھنے اور دلیلوں کی چومکھی کھیلنے کو خفیہ طور پر کتاب و اخبار و جرائد پڑھے جاتے۔ اصحابِ فکر و دانش سے ملا جاتا، اپنے ارد گرد کو عمیق نگاہی سے دیکھا جاتا۔ پھر کبھی کبھار منو بھائی، ڈاکٹر حسن عسکری، مجیب الرحمان شامی، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، ازہر منیر، عامر خاکوانی، خالد احمد، نجیب احمد، شہزاد احمد، وقار مصطفیٰ، نصراللہ غلزئی جیسے قد آور بھی میسر ہو جاتے۔ ان کی گفت گو اور گپ شپ سے اکتساب کرتے۔
اکمل کا وہ دوست بہت پیارا ور خوبرو نوجوان تھا۔ جب بات کرتے مسکراتا تو اس کی آنکھیں بھی مسکراتیں۔ آنکھوں کے کونے سُکڑ جاتے اور ان کونوں سے نکلتی لکیریں سی کانوں کی طرف لپکتیں۔ مارکسی نظریات کو پڑھ پڑھ اور معاشرتی نا ہمواری و عدم مساوات کو جان جان اور دنیا کے ہر گلی محلے اور شہر و ملک میں اور معلوم تاریخ کے ہر صفحے پر سماج کو معاشی و طاقتی طبقات میں بٹا دیکھ دیکھ، اور انسان کے ہاتھوں انسان کے ہوتے استحصال پر، دنیا کے کسی بھی مذہب کے خدا کی مستقل عدم دل چسپی و لاپروائی کے سبب وہ پیارا دانش ور ، ردِ وجود و تصورِ خدا پر خوب صورت لبوں کے ساتھ دھیمے و دل نشین لہجوں میں دلیلیں دیا کرتا۔ ہم میں سے کوئی اگر اپنے تئیں کوئی روائتی سی بات اس کی بات کے خلاف کرنے کی کوشش کرتا تو اس کے اُنہیں خوب صورت لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ آجاتی جس سے اُس کی کنچا رنگی آنکھوں کے کونے سُکڑ جاتے اور ان سکڑے کونوں سے نکلتی لکیریں، کرنوں کی طرح اس کے کانوں کی طرف پھیل جاتیں اور پھر ہنستے ہوئے ایسے دیکھتا گویا کہہ رہا ہو “چھڈو بسرأ صاحب، ایہہ گلّاں تہاڈی سمجھوں باہر دیاں نیں (چھوڑیں بسرأ صاحب، یہ باتیں آپ کی فہم سے باہر کی ہیں)” اور گفت گو کا موضوع بدل دیتا۔ مثلاً، ایشوریا رائے کمال کی اداکارہ ہے، جگجیت سنگھ کی فُلاں غزل کمال کی ہے یا یہ کہ سینما میں آج کل کون سی فلم لگی ہے جیسی باتوں پر بات شروع ہوجاتی۔
اسی پیارے نوجوان کا ایک قصہ فرحان مشتاق نے سنایا تھا۔ جب سنا تو ہنس کے سنایا گیا اور سن کر ہنسا گیا۔ لیکن واقعہ جہاں دل چسپ ہے وہیں سوچ کے کئی در بھی وا کر دیتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک بار فرحان مشتاق کے ساتھ کہیں اور کسی دوسرے شہر میں کوئی ایسی ہی محفل سجی۔ باتیں کرتے رات گہری ہوگئی اور جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں سو گیا۔ وہ نوجوان ایک صوفے پر بیٹھا تھا، وہیں سو گیا۔ بقول فرحان، آدھی رات کو اچانک اس نوجوان کی گھبرائی ہوئی آوازیں سن کر سب جاگ گئے۔ وہ نوجوان مسلسل پکارے جارہا تھا ’’یا اللہ، استغفراللہ۔۔۔ یا اللہ رحم۔۔ استغفراللہ۔۔ یا اللہ رحم۔۔ یا اللہ۔۔ رحم ۔۔”
سب گھبرا کے اسے دیکھنے لگے کہ ہوا کیا ہے۔ پتا چلا کہ ایک ہی کروٹ پر سوئے رہنے کی وجہ سے اس کا کروٹ تلے دب جانے والا بازو سُن ہو گیا تھا۔ اچانک آنکھ کھلی تو اسے لگا اس کے کندھے کے ساتھ بازو ہی نہیں تھا تو گھبرا کے اس نے یا اللہ، یا اللہ کا ورد شروع کردیا۔ اگرچہ شعوری طور پر اس نے مذہب سے دوری اختیار کر لی تھی لیکن وقتِ مصیبت اس کے لبوں سے وہی نام نکلا کہ جو بچپن سے اس کے روزمرہ کا حصہ تھا۔ اس کے منہ سے جب دوستوں نے یہ سنا تو سبھی بے اختیار مسکرا اُٹھے۔
اس کیفیت میں اس نوجوان کا گھبرانا بھی فطری تھا اور یہ ورد کرنا بھی فطری تھا کیوں کہ اس نام کے ساتھ اس کی نسبت و محبت پیدائشی تھی۔ اس کے تحت الشعور میں جا گزیں ہو چکی تھی۔ نسلوں سے اس کے خاندانی اور معاشرتی شعور کا حصہ تھی۔ اسی لیے غیر معمولی و غیر متوقع خارجی محرک پر اس کے بے ساختہ لا شعوری ردعمل کا بھی حصہ تھی۔ اس سے پیچھا چھڑانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔
کچھ اسی طرح ہمارے یہاں پیرائی و پیشوائی اور سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں اور پیروں، روحانی پیش واؤں اور سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ عقیدت و محبت آگے بڑھ کر ان کی آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی جاری رہتی ہے۔ جیسے جیسے وہ پیر اور روحانی پیش وا اور سیاست دان نسل در نسل آگے بڑھتے ہیں، اپنے حقِ پیرگی و سیاست و حکم رانی کو اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں، ان کے عقیدت مند بھی ویسے ہی اس عقیدت کو اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں، یا وہ خود بہ خود منتقل ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ محبت، عقل و خِرَد سے ماورا، جذباتی وابستگی میں تبدیل ہو کر لا شعور کی رگوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ اس حلقۂ عقیدت و ارادت کو توڑنا بے حد مشکل کام ہے اور جس عہدِ ہونی میں اس حلقۂ عقیدت و محبت کے ٹوٹنے کی یہ ان ہونی ہوگئی، ملک میں وہ جمہوریت آجائے گی جس کے خواب ہمیں دکھائے جاتے ہیں ورنہ اب تک تو دیکھا سنا یہی ہے کہ آپ چاہے جتنا بھی پڑھ لکھ جائیں، رشی منی ہو جائیں، فیثا غورث بن جائیں، ارسطو یا افلاطون، آئن سٹائن یا مادام کیوری، عہدِ گذشتہ میں جاہل رہ کر، عہدِ رفتہ کے عالم و عارف بن جائیں، دلیل و منطق و فلسفہ میں یگانہ ہو جائیں، سیاسی وابستگی کے اظہار و دفاع میں، سب ایک سے ہو جاتے ہیں۔
پچھلے 75 سالوں سے وہی روایت چلی آرہی ہے۔ وہی نعرے، وہی وعدے، وہی منشور اور کسی بھی منشور کے پورا نہ ہونے پر وہی تقریر جو ہر بار کی جاتی ہے۔ اور اُس تقریر کرنے والے کے بھگت، اس تقریر کا دفاع کر نے میں، تقریر کرنے والے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے نِکات و نِقاط اور توضیحات و تشریحات اپنے مرکزِ عقیدت کے عُہُود ہائے باطل کی حمایت و تائید میں تلاش کرتے ہیں کہ عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے۔ فریقِ ثانی ذرا سا آمادۂ بحث یا جرأتِ اختلاف کا جو مرتکب ہو تو پھر مغلَّظات و تعفُّنات سے اس کی تواضع کی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اکیسویں صدی کے چوبیسویں سال میں بپا ہونے والی فضائے انتخابات بعینہِ ویسی ہی ہے کہ جیسی بیسویں صدی کے نصف سے کچھ ذیادہ میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری رویے فرد میں پنپ سکے نہ ہی معاشرے میں۔ اور چونکہ معاشرہ اداروں کی افرادی قوت کے لیے خام مال مہیا کرتا ہے، تو وہی رویے ہمارے اداروں کے کارہائے کلیدی میں بھی نمایاں ہیں۔ اپنے اپنے فرد کی محبت و عقیدت سے جب تک باہر نہیں نکلا جائے گا، اپنے اپنے فرد کے وعدۂ فردا کو جب تک اِمروز کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جائے گا، اس کے قول اور فعل کا تجزیہ و نتارا غیر جذباتی انداز میں نہیں کیا جائے گا، یہی سلسہ، اسی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔اور ہم اپنے اپنے میدانوں کے افلاطون و ارسطو، ارشمیدس و فیثا غورث، آئن سٹائن و مادام کیوری ہوتے ہوئے بھی عقیدت کے اس میدان میں غیر سائنسی و غیر منطقی ہی رہیں گے۔
کیوں کہ وہ کیا ہے نا کہ، سیاسی پارٹی اور اس پارٹی کے گدی نشین کے ساتھ نسبت بھی، پیدائشی مذہب، اور پہلی محبت کی طرح ہوتی ہے۔ اس سے انسیت جان چھوڑ کر ہی نہیں دیتی۔۔۔ ہے نا؟