جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
ہم پراپیگنڈے کے اس دور کا حصہ ہیں جہاں سچ بولنے اورسننے کی ہمت نہیں اور جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب ہے۔ سچ یہ ہے کہ 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی، کامیابی اس بار مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار وں کا مقدر ٹھہرتی نظر آتی ہے۔ اور جھوٹ یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف اب مقبول ترین جماعت نہیں رہی اس لیے وہ میدان میں کہیں نظر نہیں آتی۔
کہا جا رہا تھا کہ انتخابات میں تحریک انصاف موجود نہیں ہو گی لیکن سروے بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف ہر جگہ ہے اور پوری قوت سے موجود ہے۔ عمران خان میدان میں نہ ہوتے ہوئے بھی بھرپور عوامی پذیرائی کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنے ووٹرز کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ تمام جماعتیں یکجا ہو کر بھی عمران خان اور ان کے بیانیے کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ وہ جیل جاتے جاتے اپنے مزاحمتی بیانیے کا جھنڈا بلند کر گئے۔
اور سچ یہی ہے کہ عمران خان سب سے مقبول عوامی لیڈر ہیں، جس حلقے میں جائیں ان کے چاہنے والوں کی لائن نظر آتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر انتخابات شفاف ہوئے تو بھرپور امید ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ حکومت بنائے گی۔
عمران خان کے خلاف پے در پے فیصلے آنے کے بعد درجنوں سوال بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ ان کو متعدد مقدمات میں گھیر کر سیاست سے باہر کیا جا رہا ہے، اگر ایک مقدمے میں ان کی رہائی کا سوچا جائے تو دوسرے مقدمے میں سزا کا حکم صادر ہو جاتا ہے۔ عمران خان کا صرف احتساب نہیں ہو رہا بلکہ انہیں انتقام کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مقتدر قوتیں عمران خان کی طاقت کم کر کےنہ صرف اقتدار کی دوڑ بلکہ عوام کے دل سے بھی نکالنا چاہتی ہے اسی لیےعدالتوں کو بھی سیاسی معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
فلاپ فلم اور پرانے کرداروں نے تماش بینوں کی دلچسپی کو کم تو کیا تھا لیکن عمران خان نے ہمدردی کا سارا ووٹ سمیٹتے ہوئےاپنے ووٹرز کو جوڑے رکھا اور ڈائریکٹرز کی فلم کو فلاپ کر دیا، کہا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف 9مئی کے بعد سسٹم میں نظر نہیں آئے گی لیکن عوام کی طاقت ابھی بھی ان کے ساتھ ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ۔
پی ٹی آئی پر پابندیوں کی وجہ سے اب نہ تو جلسوں میں وہ گہما گہمی نظر آتی ہے نہ عوام میں روایتی جوش و خروش۔ اب جیت جس کی بھی ہو عوام اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ عمران خان کے لیے جال بچھایا گیا تھا، عوام جانتے ہیں کہ انتخابات میں فیصلہ تو مقتدر قوتوں کا ہی ہو گا لیکن وہ اصل حکمرانوں کا یہ فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔
سلیکٹرز با اختیار ہیں عوام کی رائے سے انہیں کوئی سروکار نہیں، تمام کھلاڑیوں کے ماضی اور حال کا علم ہے اور اسی بنیاد پرکسی کی غلطیوں کو معاف اور کسی کی غلطیوں کی سزا کے طور پر ان کا مستقبل طے کیا جا رہا ہے۔ انتخابات سے قبل چلی گئی چالوں کا نتیجہ رزلٹ کی صورت میں سامنے آنے کو ہی ہے لیکن آنے والے چند دنوں میں کیا ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا، جیت سے پہلے جیت کا جشن منانے والوں کی خوشی غم میں بھی بدل سکتی ہے۔ مستقبل میں اسی عمران خان کو یہی مقتدر قوتیں دوبارہ اقتدار میں لاسکتی ہیں اور سیاسی ٹرائل کا شکار کوئی اور جماعت ،کوئی اور لیڈر ہو گا۔
اسٹیبلشمنٹ نے مخالفت سے مفاہمت کا سفر جس تیزی سے طے کیا ہےاس کی بھی مثال نہیں ملتی اور اس مفاہمت میں اگر انتخابات دھند کی نذر نہ ہوئے تو اس وقت عمران خان کو سیاسی میدان میں شکست دینا تقریباً نا ممکن نظر آتا ہے۔ دیکھتے ہیں دھند کاُموسم گزرنے کے بعد مطلع پر کیا نظر آتا ہے!