ہفتے کے روز جج قدرت اللہ نے مقررہ وقت پر فیصلہ دینے میں جب تھوڑی تاخیر کی تو سوشل میڈیا پر لوگ طرح طرح کے سوالات پوچھنا شروع ہوگئے۔ فیصلے سے متعلق تو سب کو ہی اندازہ تھا کہ وہ عمران خان کے خلاف آئے گا لیکن لوگوں میں تجسس اس بات کا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کتنے سال کی سزا ملے گی۔
پاکستان پینل کوڈ کی شق 496 کے تحت زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا مقرر ہے۔ گمان یہی کیا جارہا تھا کہ شاید دونوں کو ایک، دو سال کی سزا اور کچھ جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس جج نے دونوں میاں بیوی کو 7، 7 سال سزا اور 5، 5 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔
فیصلے کے بعد کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی کہ کسی کے ذاتی معاملے کو اس طرح عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ لوگوں نے بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا پر بھی تنقید کی جبکہ چند صحافیوں نے کسی سیاسی لیڈر کی نجی زندگی کو اس طرح زیرِ بحث لانے پر سوال اٹھائے کہ یہ جو ٹرینڈ سیٹ کیا جارہا ہے اس سے کسی کی بھی اب ذاتی زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی لیڈر کی ذاتی زندگی زیرِ بحث نہیں آسکتی؟ کیا کسی رہنما کی شادی سے متعلق معاملات عدالت میں نہیں جاسکتے؟ اور عدالت نے اس کیس میں جو فیصلہ دیا ہے کیا وہ میرٹ کے مطابق ہے یا نہیں؟
اگر ہم دنیا بھر کے ممالک کی تاریخ دیکھیں تو شاید کوئی ملک ایسا نہ ملے جہاں کے سیاستدانوں یا سلیبریٹیز کے جنسی اسکینڈل میڈیا پر زیرِ بحث نہ آئے ہوں۔ امریکا جیسے جدید جمہوری ملک کی مثال لے لیں تو اس کے صدور سے لے کر گورنرز اور سینیٹرز تک کے بے شمار جنسی اور ذاتی اسکینڈل ناصرف میڈیا کی زینت بنے بلکہ زیادہ تر کو ان اسکینڈلز کی بنیاد پر مستعفی ہونا پڑا۔
امریکی صدر بل کلنٹن کو تو کانگریس میں مواخذے تک کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ پر بھی جنسی نوعیت کے الزامات لگے۔ تو گویا امریکا جیسے ملک میں سیاستدانوں کی نجی زندگی زیرِ بحث آتی رہی ہے۔
اگر ہم برطانیہ کی مثال دیکھیں تو 1960 کی دہائی میں پروفومو اسکینڈل نے اُس وقت پورے برطانوی سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی پروفومو اسکینڈل کی زد میں پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان بھی زد میں آئے۔
ہوا کچھ یوں کہ صدر ایوب خان 1963 میں برطانیہ کے دورے پر گئے تو برطانوی وزیرِ دفاع John Profumo نے انہیں ایک پول پارٹی پر مدعو کیا۔ اس پارٹی میں صدر ایوب کی کچھ تصاویر ایک خاتون Christian Keeler کے ساتھ لیک ہوئیں۔ یہ پروفومو اسکینڈل برطانوی میڈیا پر اتنا زیادہ زیرِ بحث آیا کہ برطانوی وزیرِ دفاع کو مستعفی ہونا پڑا۔
ان واقعات کا ذکر کرنے کا مقصد اپنے قارئین کو یہ بتانا ہے کہ سیاستدانوں کی ذاتی زندگی بھی پبلک لائف ہی ہوتی ہے اور دنیا بھر میں سیاستدانوں کی ذاتی زندگیوں کو زیرِ بحث لایا جاتا رہا ہے۔ اور تو اور پڑوسی ملک بھارت میں بھی سیاستدانوں کے کئی اسکینڈل میڈیا پر زیرِ بحث رہ چکے ہیں۔
بہرحال اب ذرا بات کرتے ہیں کہ کیا عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت کیس میں دی جانے والی سزا اور اس کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے یا نہیں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ آخر خاور مانیکا نے ہی کیوں اپنی سابقہ بیوی اور عمران خان کیخلاف مقدمہ دائر کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی شق نمبر 493 سے لیکر 496 کے تحت جو بھی مقدمات درج کیے جاتے ہیں اس میں کوئی براہِ راست متاثر شخص ہی مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ اس کیس میں خاور مانیکا یا ان کے بیٹے ایسا کرسکتے تھے۔ اسی لیے خاور مانیکا براہِ راست اس مقدمے کے مدعی بنے۔
دوسرا جو سب سے اہم سوال ہے وہ یہ کہ کیا عمران خان نے بشریٰ بی بی سے نکاح عدت کے دوران کیا یا عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد۔ خاور مانیکا نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کو طلاق 14 نومبر 2017 کو دی۔ اپنے اس دعوے کے دفاع میں انہوں نے طلاق کا سرٹیفیکٹ عدالت میں جمع کروایا۔
مسلم فیملی لا کی شق نمبر 7 کے مطابق اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو اسے متعلقہ یونین کونسل میں ایک نوٹس جمع کروانا ہوتا ہے۔ وہ یونین کونسل پھر ایک مصالحتی کونسل تشکیل دیتی ہے تاکہ 90 دنوں کے اندر اگر شوہر دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو اسے حق حاصل ہے ورنہ 90 دنوں کے بعد وہ طلاق قانونی طور پر لاگو ہوجاتی ہے۔
گویا خاور مانیکا کے طلاق دینے کے بعد قانونی طور پر 90 دن 14 فروری 2018 کو پورے ہونے تھے۔ لیکن عمران خان نے بشریٰ بی بی سے قانونی طور پر عدت مکمل ہونے سے پہلے ہی یکم جنوری کو نکاح کرلیا۔
مگر اس وقت جب دی نیوز کے رپورٹر عمر چیمہ نے خان صاحب کے عدت میں نکاح سے متعلق خبر دی تو عمران خان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی صرف رشتہ بھیجا ہے شادی نہیں ہوئی۔ تاہم اب عدالت میں عمران خان نے اپنے 342 کے بیان میں تسلیم کیا کہ ان کا نکاح یکم جنوری کو ہی ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے عمران خان نے دورانِ عدت ہی نکاح کیا لیکن عوام سے اس بارے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔
اس مقدمے سے متعلق سوشل میڈیا پر شرعی اور قانونی لحاظ سے جو بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ان تمام کے جواب جج قدرت اللہ نے اپنے فیصلے میں تفصیل کے ساتھ درج کیے ہیں۔
قانونی اعتبار سے یہ فیصلہ بالکل میرٹ پر ہے، ہاں البتہ سزا زیادہ سے زیادہ دینے کے حوالے سے بحث ہوسکتی ہے کہ جج صاحب اس میں رعایت بھی برت سکتے تھے۔ بہرحال اس فیصلے سے عمران خان کی سیاست اور ذاتی زندگی پر مستقبل میں کیا اثرات ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔