خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں ضلعی انتظامیہ نے این اے 1 سے جمعیت علماء اسلام کے نامزد امیدوار طلحہٰ محمود کے نام پر قائم فاؤنڈیشن کی جانب سے راشن تقسیم کرنے کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے راشن اور آٹے سے بھرے ٹرکوں کو چترال میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ لوئرچترال نے وی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ طلحہٰ محمود فاؤنڈیشن کے ٹرکوں کو چترال داخلے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ کے مطابق کسی کو الیکشن پر اثراندازہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مزید پڑھیں
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ شب چترال کے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریٹرنگ افسرکوموصول شکایت کے مطابق جے یو آئی کے امیدوار طلحہٰ محمود مبینہ طورپرووٹ خرید کر الیکشن پراثراندازہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس ضمن میں سابق وفاقی وزیر طلحہٰ محمود نے اپنے انتخابی حلقے این اے 1 چترال کے لیے آٹے سے لدے 100 سے زائد ٹرک منگوائے ہیں، سیاسی امیدواروں کی جانب سے شکایت پرانتظامیہ نے ٹرکوں کا چترال وادی میں داخلہ روک دیاہے۔
انتظامیہ کے مطابق 35 سے زائد ٹرک چترال آرہے تھے، جس پر 50 ہزار خاندانوں کے لیے راشن کا سامان لدا ہوا تھا، جنہیں عشیریت چترال اور دیر کے مقام پر روک دیا گیا ہے اور مزید آگے آنے اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
طلحہٰ محمود اپنی فاؤنڈیشن کی آڑمیں آٹا تقسیم کرنا چاہتے تھے جس کی اس سے پہلے قبل بھی شکایات موصول ہوئی تھیں کیونکہ انہوں نے اپنے جلسوں میں آٹا تقسیم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
ضلعی انتظامیہ اپرچترال نے بھی طلحہٰ محمود فاؤنڈیشن کے ٹرکوں کے چترال میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے، ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ الیکشن تک کسی کو راشن یا آٹا تقسیم کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
طلحہ محمود کے خلاف پیسہ اور راشن تقسیم کرنے کا الزام
این اے ون چترال سے جے یوآئی نے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر طلحہٰ محمود کو امیدوارنامزد کیا ہے، جوآج کل زوروشور سے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل متعدد ویڈیوز میں ان کے جلسوں میں پیسوں کی مبینہ تقسیم کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں، اسی طرح وہ مختلف مقامات پر آٹا تقسیم کرنے کا بھی اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کے مخالف امیدواروں کے مطابق طلحہٰ محمود کھلے عام پیسے اور دیگر سامان تقسیم انتخابی حلقے میں ممکنہ ووٹروں میں تقسیم کررہے ہیں، تاہم متعدد شکایات کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں باقاعدہ کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔