الیکشن 2024: کیا تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں 2018 جیسا نتیجہ حاصل کرسکے گی؟

منگل 6 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سال 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف شدید مشکلات اور مسائل دوچار ہے۔ بلے کا نشان بھی نہیں ہے اور عمران خان بھی جیل میں ہیں لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا میں سیاسی گراف اوپر ہے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔

گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 میں سے 37 سیٹیں جیتی تھی۔ جبکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی زیر عتاب ہے اور الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان بھی واپس لے لیا ہے۔ ساتھ عمران خان جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بھی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف اب اب بھی صوبے میں سب مقبول ترین جماعت ہے اور اس کے سب سے زیادہ نشتیں جیتنے کے امکانات ہیں۔

کے پی کے 4 زون، کہاں کس کا پلڑا بھاری؟

خیبر پختونخوا 4 زون میں تقسیم ہے۔ میدانی زون میں اضلاع پشاور، چارسدہ، مردان صوابی شامل ہیں۔ ہزارہ زون میں ہری پور سے لے کر کوہستان تک اضلاع شامل ہیں۔ مالاکنڈ زون میں مالاکنڈ سے لے کر چترال جبکہ کوہاٹ سے لے کر ڈی آئی خان تک کے علاقے جنوبی زون میں شامل ہیں۔

سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار لحاظ علی کا کہنا ہے کہ ہر زون میں تمام سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن تحریک انصاف کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ن لیگ اور پی پی پی کی خیبرپختونخوا میں پوزیشن

لحاظ علی کا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی خیبرپختونخوا میں کمزور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دونوں جماعتوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے اور گزشتہ عام انتخابات میں بھی دونوں جماعتوں کی کارکردگی خراب تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کا فوکس پنجاب اور پی پی پی کا سندھ ہے اور دونوں جماعتوں نے کے پی کو مکمل نظر انداز کیا جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عام طور پر ہزارہ کو ن لیگ کا گڑھ کہا جاتا تھا لیکن اب دیکھا جائے تو ہزارہ ن لیگ کا گڑھ نہیں رہا ہے بلکہ پی ٹی ائی وہاں بھی مقبول جماعت بن گئی ہے۔

لحاظ علی نے کہا کہ نواز شریف خود بھی ہزارہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور شاید کامیاب بھی ہو جائیں لیکن دیگر حلقوں میں ن لیگ کی پوزیشن کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔

حکومتی سازی کے حوالے سے ’کنگ زون‘ کون سا؟

خیبر پختونخوا کے سینٹرل زون کو کنگ زون بھی کہا جانا ہے اور جو جماعت سینٹرل زون سے کامیابی حاصل کرتی ہے وہ صوبے میں حکومت بنا لیتی ہے۔ سنہ 2002، 2008 اور 2013 میں یہی صورت حال رہی۔ لحاظ علی کے مطابق تحریک انصاف سینٹرل زون میں بلے کے نشان کے بغیر بھی سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ دیگر جماعتیں وہاں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے لیے بلے کے بغیر سنہ 2018 کی طرح نشتیں جیتنا شاید مشکل ہو لیکن پھر بھی دیگر جماعتوں کی نسبت وہ زیادہ نشتیں حاصل کرلے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پشاور کے قومی اسمبلی کی 5 میں سے 3 پر پی ٹی آئی مضبوط ہے جبکہ 2 پر جے یو آئی کی پوزیشن اچھی ہے جبکہ پشاور میں صوبائی کی 13 نشتوں پر بھی پی ٹی آئی کی اور 2 پر اے این پی کی پوزیشن مضبوط ہے۔

پشاور میں پی ٹی آئی کو کون ٹف ٹائم دے سکتا ہے؟

سینیئر صحافی علی اکبر کے مطابق پشاور میں اے این پی اور جے یو آئی  پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں اور ان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

علی اکبر نے بتایا کہ این اے 32 سے غلام بلور کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مردان میں علی محمد خان کی پوزیشن مضبوط ہے جبکہ عاطف خان اور امیر حیدر خان ہوتی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

مالاکنڈ میں کون آگے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق مالاکنڈ میں بھی تحریک انصاف خاصی مقبول ہے لیکن محمود خان کے جانے سے پارٹی کو وہاں کچھ حد تک نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو مالاکنڈ میں کامیابی ملی تھی۔

صحافی ظہیر الدین کے مطابق مالاکنڈ کے کچھ اضلاع میں دیگر جماعتیں زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے جبکہ دیر کے کچھ حلقوں پر جماعت اسلامی کی پوزیشن مضبوط ہے جہاں پی ٹی آئی بھی اچھا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوات میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی مضبوط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شانگلہ واحد ضلع ہے جہاں ن لیگ کی پوزیشن بہتر ہے اور صوبائی صدر امیر مقام کی گرفت مضبوط ہے۔

جنوبی اضلاع کا فاتح کون ہوگا؟

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو جے یو آئی کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن سنہ 2013 اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے جنوبی اضلاع سے سب کا صفایا کردیا تھا۔ وہاں سال 2018 میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی شکست ہوئی تھی۔

لحاظ علی کے مطابق سنہ 2018 کے مقابلے میں جے یوائی کی پوزیشن بہت بہتر ہوئی ہے جس کا ثبوت حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں پی ٹی آئی حکومت کی باوجود جے یوائی کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔

انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے پی ٹی آئی وہ واحد جماعت ہے جس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اے این پی بھی بیحد کمزور ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف سختی کا فائدہ مولانا کو ہوا ہے اور انہوں نے مذہبی حلقوں کے علاوہ آزاد خیال حلقے کا ووٹ بھی حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور انہیں اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔

لحاظ علی نے کہا کہ اس کے باوجود بھی جنوبی اضلاع میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہے تاہم اس بار مولانا خود بھی مضبوط ہیں اور ان کے بیٹے کے جیتنے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔

علی اکبر نے بھی لحاظ علی کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی اضلاع میں جے یو آئی مضبوط ہےجبکہ بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اور جے یو آئی کے رہنما اکرم درانی مضبوط ہیں۔

بلے کی عدم موجودگی پی ٹی آئی ووٹ بینک پر کتنا اثر ڈالے گی؟

لحاظ علی کے مطابق بلے کا نشان نہ ملنے پر پی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثر ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کا ووٹ 25 فیصد تک کم ہوسکتا ہے جبکہ انتخابی منظم طور پر نہ چلنے کے باعث بھی امیدواوں کو نقصان ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ان تمام مشکل حالات کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایتی یافتہ ازاد امیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں اور شاید سنہ 2018 جیسی کامیابی تو ممکن نہیں لیکن نشتیں سب سے زیادہ لینے کے امکانات روشن ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp