سابق دورِ حکومت میں وزیراعظم کے دو مشیران صحت سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایچ آئی وی کا مرض وبائی صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے اور اگر اس مسئلے کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو پاکستان میں افریقہ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے اراکین سے خطاب میں نامور ماہر متعدی امراض اور سابق وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ان کے ہر کلینک میں ایچ آئی وی کے تین سے چار نئے نوجوان مریض سامنے آ رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک صورت حال کا عکاس ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ جب وہ انیس سو پچانوے میں امریکہ سے پاکستان آئے تو انہوں نے پورے سال میں ایچ آئی وی کا ایک مریض دیکھا تھا اور اس سے اگلے سال ایچ آئی وی کا ایک اور مریض دیکھا۔
’لیکن گزشتہ چند عرصے میں ان کے ہر کلینک میں ایچ آئی وی کے تین سے چار نئے نوجوان مریضوں کی تشخیص سے ثابت ہوتا ہے کہ اب یہ کوئی خاموش وبا نہیں رہی۔‘
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی کا مرض وبائی صورتحال اختیار کر کے قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے اس لئے اس کا فوری تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور سابق وفاقی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایچ آئی وی کی “وبا کے دہانے” پر بیٹھا ہوا ہے۔
’اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو پاکستان افریقی ممالک جیسی صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے، جہاں اموات کی سب سے بڑی وجہ ایچ آئی وی اور ایڈز کی بیماری ہے۔‘
دوسری جانب سندھ سمیت پاکستان بھر میں ایچ آئی وی کے کیسز میں تشویشناک طور پر اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور موجودہ سال کے پہلے دو مہینوں میں لاڑکانہ اور اس سے ملحقہ تین اضلاع میں اب تک ایچ آئی وی کے 64 نئے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں 17 بچے بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ میں ایچ آئی وی وی میں مبتلا بچوں کی تعداد تقریباً اٹھائیس سو سے زائد ہوچکی ہے۔
قومی ادارہ برائے امراض صحت اسلام آباد کے مطابق رواں برس صرف فروری میں لاڑکانہ اور اس سے ملحقہ تین اضلاع میں ایچ آئی وی کے 21 نئے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
وفاقی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں ہر مہینے ایچ آئی وی کے تقریباً ایک ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں لیکن اندازہ ہے کہ ایچ آئی وی میں مبتلا افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
’کیونکہ پاکستان میں صرف رضاکارانہ طور پر ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے اور ایسے افراد جن میں کسی طرح کی علامات ظاہر ہوں وہی اپنا ایچ آئی وی کا اسٹیٹس جاننے کے لیے ٹیسٹ کرواتے ہیں۔‘
وفاقی وزارت صحت کے حکام کے مطابق گزشتہ سال پاکستان بھر میں ایچ آئی وی کے تقریبا بارہ ہزار نئے مریض سامنے آئے تھے لیکن اگر ہائی رسک گروپس میں ایچ آئی وی کی ٹیسٹنگ لازمی کردی جائے تو یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی ماہر گراہم شا کی جانب سے وفاقی وزارت صحت کو فراہم کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی پھیلنے کی ایک سب سے بڑی وجہ سیکس ورکرز اور ہم جنس پرست مردوں میں chemsex یا منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس گروپ کے افراد نشے کے زیر اثر تمام احتیاطی تدابیر بھلا بیٹھتے ہیں اور دانستہ اور غیر دانستہ دونوں طرح سے ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کراچی اور لاہور میں وفاقی اور صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرامز کے جائزے کے دوران بھی اس بات کا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی کا مرض نہ صرف تمام ہائی رسک گروپس میں تیزی سے پھیل رہا ہے بلکہ اب یہ مرض نہایت تیزی سے عام بالغ افراد اور بچوں میں بھی سرایت کر رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ آلودہ سرنجز کا استعمال اور ایچ آئی وی سے آلودہ انتقال خون ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق ہائی رسک گروپس میں سرنج سے نشہ کرنے والے افراد، ہم جنس پرست مردوں، خواجہ سرا اور جسم فروش خواتین شامل ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام کے مطابق لاڑکانہ سمیت پورا سندھ اور پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں اتائی ڈاکٹر حضرات عام افراد میں ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں، جن کے خلاف فوری ایکشن نہ لیا گیا تو رتوڈیرو طرز کے مزید واقعات سامنے آ سکتے ہیں۔