قطر کا کہنا ہے کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ مجوزہ جنگ بندی معاہدے پر ’عمومی طور پر مثبت‘ ردعمل دیا ہے جبکہ فلسطینی گروپ نے غزہ پر اسرائیلی حملے کے خاتمے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے جنگ بندی کی تجویز پر حماس کے رد عمل کو ’عام طور پر مثبت‘ قرار دیا ہے۔
قطر، امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر جنگ بندی کے لیے کام کر رہا ہے جس میں لڑائی میں لمبا وقفہ اور حماس کے پاس موجود یرغمالوں کی رہائی شامل ہوگی۔ قطری وزیر اعظم نے زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں لیکن مثبت توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلات اسرائیل تک پہنچائی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے تصدیق کی کہ حکام کو حماس کا جواب موصول ہوگیا ہے اور کہا کہ وہ بدھ (آج) کو اسرائیل کے دورے میں وہاں کے رہنماؤں کو اس بارے میں بتائیں گے۔
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے امریکا اور مشرق وسطیٰ کے ثالثوں کی تازہ ترین تجویز کا مثبت جذبے کے ساتھ جواب دیا ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مکمل جنگ بندی کا خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل، حماس کی جانب سے مستقل جنگ بندی کی خواہش کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ بلنکن اپنے اس دورے میں مصری حکام سے ملاقات کر چکے ہیں۔ وہ ایسے موقع پر خطے کا دورہ کر رہے ہیں جب اسرائیل حماس کے درمیان جاری جنگ غزہ سے ملحق مصر کی سرحد تک پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ مصر کی سرحد کے ساتھ ساتھ 23 لاکھ آبادی کے شہر غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی قریباً نصف تعداد پناہ لیے ہوئے ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان کی افواج کی پیش قدمی مصر کی سرحد پر واقع قصبے رفح کی طرف جاری ہے۔ مصر نے خبردار کیا ہے کہ اس کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی تعیناتی سے دونوں ممالک کے درمیان چار عشرے قبل طے پانے والا امن معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
مصر کو یہ خدشہ ہے کہ رفح کے علاقے میں لڑائی پھیلنے سے فلسطینی اپنی جان بچانے کے لیے سرحد پار کرکے اس کے علاقے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مصر کہہ چکا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دے گا۔
قاہرہ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے دوران یہ زور دیا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ مصر اور قطر، اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک معاہدے طے کرانے کے لیے ثالثی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ میں کئی ہفتوں کے وقفے کے بدلے حماس مزید یرغمالوں کو رہا کرے گا۔

سات اکتوبر 2023 کو غزہ میں اسرائیل کی کارروائی کے آغاز کے بعد جنگ بندی اور جنگ کا دائرہ محدود رکھنے اور نقصانات کو کم سے کم تر سطح پر لانے کی کوششوں کے سلسلے میں یہ امریکی وزیرخارجہ بلنکن کا مشرق وسطیٰ کا پانچواں دورہ ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے شام، یمن اور بحیرہ احمر میں حملوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جو آبی گزرگاہوں پر سفر کرنے والے تجارتی جہازوں کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود امریکی مفادات پر بھی حملے کر رہے ہیں۔
I met with Amir Sheikh @TamimBinHamad in Doha to discuss efforts to secure the release of all remaining hostages held by Hamas. We appreciate Qatar’s partnership and indispensable role in mediating. pic.twitter.com/NYUp4NvPk7
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 6, 2024
حال ہی میں امریکی فورسز نے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کو حملوں سے باز رکھنے کے لیے یمن، شام اور مصر میں ان کے گولہ باردو کے ٹھکانوں اور حملوں کے لیے استعمال ہونے والی تنصیبات پر درجنوں حملے کیے ہیں۔
ادھر فلسطین کی وزارت صحت کے تازہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے اسرائیل حماس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 27 ہزار 500 سے بڑھ گئی ہے جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، جب کہ مزید ہزاروں افراد زخمی ہیں۔
خطے کی یہ مہلک ترین اور تباہ کن جنگ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے جنگجوؤں کے اچانک حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے 1200 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور قریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔