انڈونیشیا: سنگین جرائم میں ملوث 72 سالہ صدارتی امیدوار نوجوانوں کے ’پیارے دادا‘ کیوں بنے؟

بدھ 7 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انڈونیشیا میں 14 فروری کو صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے والے پرابوو سوبیانتو اپنی منفرد انتخابی مہم کی بدولت نوجوان نسل میں کافی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی گمشدگیوں جیسے الزامات کا سامنا کرنے والے 72 سالہ پرابوو سوبیانتو ملک کے موجودہ وزیر دفاع ہیں اور تیسری مرتبہ صدارتی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پرابوو سوبیانتو کو اس لیے بھی مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے نائب صدر کے عہدے کے لیے انڈونیشیا کے موجودہ صدر جوکو ویدودو کے نوجوان بیٹے جبران راکا بمنگ راکا کو نامزد کیا ہے۔

انتخابی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ پرابوو سوبیانتو کو اپنے مخالف امیدواروں انیس بسویدان اور گنجر پرانوو پر واضح برتری حاصل ہے۔

پیارے دادا جان اور کارٹون کردار

میڈیا رپورٹس کے مطابق، انڈونیشیائی نوجوانوں کی بڑی تعداد پرابوو کی منفرد انتخابی مہم سے متاثر ہے۔ اس انتخابی مہم کے ذریعے انہوں نے اپنے سخت گیر رہنما ہونے کا تاثر ختم کرکے خود کو ایک نرم مزاج، شفیق اور محبت کرنے والے اور ’بہت پیارے دادا جان‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔

ٹک ٹاک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں پرابوو اور جبران کو اینیمیٹڈ کرداروں کے روپ میں مارشل آرٹس سے مشابہ ڈانس کرتے دکھایا گیا ہے۔

 پرابوو کی سوشل میڈیا پر جاری انتخابی مہم میں بلیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کے پالتو بلے ‘بوبی‘ کا ایک الگ انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا گیا ہے اور بوبی کو ایک محب وطن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کے علاوہ، انڈونیشیا کی سڑکیں اور گلیاں پربوو کی شکل کے کارٹون کرداروں کے پوسٹرز سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کرداروں کی مدد سے ان کا سوفٹ امیج نمایاں کیا جا رہا ہے  حالانکہ پربوو اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ اپنے فوجی انداز میں بات کرنے طریقے کو بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔

تفریحی انتخابی مہم

انڈونیشیا میں ووٹرز کی کل تعداد 205 ملین جبکہ ان ووٹرز کی نصف سے زیادہ تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیا کے 167 ملین سوشل میڈیا صارفین میں زیادہ تعداد انہی نوجوانوں کی ہے۔

میٹا کے ڈیٹا کے مطابق، پربوو کے آفیشل فیس بک اور اس سے منسلک دیگر اکاؤنٹس نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران اشتہارات کی مد میں ایک لاکھ 44 ہزار ڈالر کی رقم خرچ کی ہے جو کہ دیگر صدارتی امیدواروں کے مقابلے 2 سے 3 گنا زیادہ ہے۔

پربوو کی انتخابی مہم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک ’تفریحی‘ انتخابی مہم کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں، سیاسی نظریات کو مختلف طریقوں سے عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں۔

نوجوان ووٹر رہایو سارتیکا دیوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پرابوو کی اس لیے حمایت کر رہی ہیں کیونکہ وہ قابل تجدید توانائی اور زراعت کے شعبوں کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، ان کی اس بار کی انتخابی مہم پہلے کی نسب بہت اچھی ہے اور سمجھے جانے کے قابل ہے۔

’وہ پھر سے لوگوں کو غائب کریں گے‘

واضح رہے کہ پربوو کو غیر قانونی طور پر لوگوں کو لاپتہ کرنے کے الزام میں 2014 میں فوج سے نکال دیا گیا تھا تاہم انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے ذریعے اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کی ہے۔ 2014 میں انہوں نے عرب ٹی وی ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو اغوا کرنے کے احکامات دیے تھے مگر انہوں نے ایسا اعلیٰ قیادت کے احکامات پر کیا تھا۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں نوجوان افراد کو پربوو کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اور یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ انہیں مخالفین کی جانب سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

دوسری جانب، ایسے انڈونیشیائی ووٹرز بھی ہیں جنہیں پربوو کے ممکنہ طور پر ملک کا صدر بننے پر تشویش لاحق ہے۔  ایک ایسے ہی ووٹر کا کہنا ہے کہ وہ خوف زدہ ہے کہ پربوو جیت جائیں گے، اگر وہ ماضی میں لوگوں کی آوازیں خاموش کرانے میں ملوث رہے ہیں تو وہ منتخب ہو کر دوبارہ ایسا کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک راہنما کی اہلیت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ’پیارا لگتا‘ ہے، اگر آپ کی نظر میں یہی لیڈر کی اہلیت ہے تو پھر بلی کے بچوں کا انتخاب کرلینا زیادہ بہتر ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp