’چترال خدا حافظ! آپ جانیں اپ کا کام جانے، آپ نے اپنا ممبر منتخب کر لیا آپ جانیں وہ جانے‘۔
یہ کہنا ہے جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما اور امیدوار این اے ون چترال محمد طلحہ محمود کا جو عام انتخابات کے لیے چترال میں مہنگی ترین مہم چلانے کے باوجود ہار گ اور چترال سے مایوس ہوکر اپنے آبائی علاقے ہزارہ روانہ ہو گئے۔
این اے ون چترال
این اے ون چترال سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ازاد امیدوار عبداللطیف 61834 ووٹ لے کر پہلے نمبر جبکہ جے یو آئی کے محمد طلحہ محمود 42987 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔
سسرال میں الیکشن مہم
این اے ون چترال سے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد ہی ہزارہ سے تعلق رکھنے والے بزنس مین طلحہ محمود انتخابی مہم کے لیے چترال پہنچ گئے اور زور شور سے مہم کا آغاز کیا۔
طلحہ محمود کے قریبی حلقوں کے مطابق طلحہ محمود نے چترال میں بھی شادی کی ہے، یوں انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ چترال میں مہم کا آغاز کیا تھا۔
طلحہ محمود تھوڑے ہی وقت میں چترال میں مشہور ہوگئے اور سوشل میڈیا میں ان کی ویڈیوز گردش کرنے لگیں، جس میں نقد رقوم اور کھانا بانٹنے، چترال کو ترقی یافتہ بنانے، راشن اور آٹا تقسیم کرنے اعلانات کرتے دکھائی دیے۔ ان کی فراخ دلانہ مہم پر ان کے مخالفین الزامات لگاتے رہے۔
الیکشن مہم کے دوران ان کی چترالی اہلیہ سے بیٹے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
’5ہزار سے کم کسی کو نہیں دیتے تھے‘
چترال میں انتخابی مہم کے دوران طلحہ محمود کی جانب سے پیسے دینے کی متعدد ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔ ایک ویڈیو میں پی ٹی آئی کے ورکرز نے الزام عائد کیا تھا کہ طلحہ محمود نے انہیں ووٹ دینے کے لیے 20ہزار روپے دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیسے لینے کے باوجود بھی وہ ووٹ پی ٹی آئی کو ہی دیں گے۔ مقامی افراد کے مطابق مہم کے دوران طلحہ محمود کو چترال میں اسٹیٹ بینک کا اے ٹی ایم کہا جاتا تھا اور فی فرد کا 5ہزار دیتا تھا۔
مہم کے دوران طلحہ محمود ترقیاتی کاموں کے لیے جیب سے پیسے اور جیت کے بعد کام کا وعدہ کرتے رہے۔ طلحہ محمود انتہائی کم وقت میں مہم کے دوران چترال کے دوردراز گاؤں پہنچے اور بھرپور انتخابی مہم چلائی، جس کی وجہ سے مخالفین بھی خوف زدہ تھے۔
چترال میں کھانے کی دینے کی روایت کا آغاز
طلحہ محمود نے پہلی بار چترال میں انتخابی جلسوں کے دوران کھانا دینے کی روایت شروع کی۔ ان کے جلسوں میں کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ جو مقامی افراد کے لیے انہونی بات تھی۔
اسماعیلی کونسل اور لڑکیوں کے کھیلوں کی حمایت
جے یو آئی پالیسی کے برعکس طلحہ محمود الیکشن مہم کے دوران پہلی بار چترال میں اسماعیلی کونسل کے دفتر گئے اور آغا خان فاؤنڈیشن کے خدمات کو سہراہا۔ علاوہ ازیں انہوں نے پارٹی مخالفت کے باوجود بھی لڑکیوں کے کھیلوں کو فروغ دینے اور بہتر مواقع فراہم کا بھی اعلان کیا۔
طلحہ محمود نے لڑکیوں کے آئس ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور انعامات تقسیم کیے۔
راشن سے بھرے ٹرکوں کو چترال میں داخلے سے روک دیا گیا
الیکشن سے 2 دن قبل طلحہ محمود فاؤنڈیشن کی جانب سے امدادی راشن تقسیم کرنے کے اعلانات کیے گئے اور راشن سے بھرے 50 ٹرک چترال میں داخل ہوئے۔ جس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار ایک ہوگئے اور ریٹرنگ افسر کو درخواست دی، جس پر طلحہ محمود کے ٹرکوں کو عشیرت اور دیر کے مقام پر ہی چترال میں داخلے سے روک دیا گیا۔
ہارنے کے بعد بھی پی ٹی آئی ورکرز میں پیسہ تقسیم
طلحہ محمود الیکشن ہارنے کے بعد بھی چترال میں رہے۔ الیکشن کے بعد ان کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ پی ٹی آئی کے ورکرز میں پیسہ تقسیم کرنے دکھائی دیے۔ ویڈیو میں وہ کہتے انہیں پتا ہے وہ ووٹ اپنے پارٹی کو دیتے ہیں لیکن پھر بھی پیسا لے لیں۔ ویڈیو میں وہ پی ٹی آئی ورکرز سے گلے بھی ملتے ہیں۔
جاتے جاتے راشن کی تقسیم
طلحہ محمود جاتے جاتے بھی چترال میں راشن اور آٹا تقسیم کرکے گئے۔ وہ الیکشن کے بعد دیر میں کھڑے ٹرکوں کو چترال لے کر گئے اور راشن تقسیم کیا۔ انہوں نے چترال میں طلحہ محمود فاونڈیشن کا دفاتر جلد کھولنے کا اعلان بھی کیا۔