پاکستان پیپلز پارٹی نے آج سہ پہر پاکستان پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ وزارت عظمیٰ کی امیدوار نہیں لیکن آصف علی زرداری صدر پاکستان کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔ پیپلز پارٹی وزارتوں میں حصہ نہیں لے گی لیکن چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کے آئینی عہدوں کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔
مزید پڑھیں
ملک کو اس وقت شدید ترین معاشی اور سیکیورٹی بحرانوں کا سامنا ہے اور کوئی بھی حکومت آئے اسے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے اور ساتھ ہی اگر ن لیگ حکومت بناتی ہے تو اسے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کا سامنا بھی کرنا پڑے گا تو سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں کون سی جماعت فائدے میں رہے گی۔
بحیثیت وزیر بلاول بھٹو کو شہباز شریف کے پیچھے چلنا پڑتا تھا، طاہر خلیل
روزنامہ جنگ کے اسلام آباد بیورو چیف اور طویل عرصے سے سیاسی معاملات کوور کرنے والے سینیئر صحافی طاہر خلیل کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حکومت کو آئی ایم ایف اور مہنگائی سے متعلق بہت سے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور مہنگائی کو آپ کسی صورت ریورس نہیں کر سکتے تو پیپلز پارٹی ان فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
طاہر خلیل نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے وہی کچھ ن لیگ کے ساتھ کیا ہے جو ن لیگ نے سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا تھا۔ سنہ 2008 میں ن لیگ کے وزرا پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہوئے اور پھر جب ان کے مفادات پورے نہیں ہو رہے تھے تو وہ حکومت سے الگ ہو گئے۔
16 ماہ والی حکومت اور پی پی کے شکوے
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں پنجاب اور کے پی سے تعلق رکھنے والے وزرا جو پی ڈی ایم حکومت میں شامل تھے انہوں نے شکوہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے نیچے ان کے کام رکے رہتے تھے اور دوسرا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم شہباز شریف کے پیچھے چلنا پڑتا جو کہ خود ایک پارٹی کے چیئرمین ہیں اور یہ پیپلز پارٹی کو اچھا نہیں لگتا تھا۔
طاہر خلیل کا کہنا تھا کہ آج چوہدری شجاعت کے گھر جو ملاقات ہو رہی ہے اس میں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور خالد مقبول صدیقی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین موجود ہیں اور تینوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔
علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ کے پی بنانے کا مقصد صاف ہے
کیا آنے والی حکومت پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کا مقابلہ کر پائے گی اس سوال کے جواب میں طاہر خلیل نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ نامزد کر کے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنا ذہن ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ٹکراؤ کی سیاست کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور جن ہر 9 مئی واقعات کے الزامات بھی ہیں اور عاطف خان ان کی نامزدگی پر اعتراضات بھی اٹھا رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی چیئرمین ترقیاتی کاموں کی بجائے ٹکراؤ کی سیاست پر اپنا فوکس رکھنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی بالآخر حکومت کا حصہ بن جائے گی، احمد بلال محبوب
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج جو پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے یہ ان کی ابتدائی آفر ہے حتمی نہیں اور ابھی مذاکرات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 29 فروری قومی اسمبلی اجلاس بلائے جانے کی تاریخ ہے جس میں ابھی کافی دن ہیں اور ابھی کافی مذاکرات ہوں گے اور لین دین ہو گا لیکن یہ ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی سارے آئینی عہدے لے جائے جہاں اس پر گورننس کی ذمے داری نہ ہو اور گورننس کی ساری ذمے داری ن لیگ پر ہو تو یہ عملی طور پر ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس کا نقصان ن لیگ کو ہو گا لیکن میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بن جائے گی۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا کہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو کتنی ڈھیل دی جائے گی لیکن ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے ہی اس طرز سیاست کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں۔
کیا بلاول بھٹو ن لیگ کو کی جانے والی پیشکش خود قبول کرسکتے ہیں، سلمان غنی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سوال تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جو آئینی عہدے مانگ رہے ہیں اور گورننس کی ذمے داری ن لیگ پر ڈال رہے ہیں تو کیا یہ آفر وہ خود اپنے لیے قبول کریں گے۔
سلمان غنی نے کہا کہ ابھی تو فضا میں بلاول کی تقریروں کی بازگشت موجود ہے جس میں انہوں نے 16 ماہ کی ’خراب‘ کارکردگی کی ذمے داری ن لیگ پر عائد کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی بلیک میلنگ پوزیشن کافی مضبوط ہے اور عمران خان کے پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم تینوں سے مذاکرات سے انکار کے بعد بلاول بھٹو نے یہ پریس کانفرنس کی ہے۔
’وزارت عظمیٰ کانٹوں کی سیج ہوگی‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے لیے تو وہ تمام عہدے مانگ رہی ہے جن کی آئینی مدت 5 سال ہے، خواہ وہ صدر کا عہدہ ہو، گورنر کا یا چیئرمین سینیٹ کا جبکہ گورننس کی تمام تر ذمے داری ن لیگ پر ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’وسیع تر قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے‘۔
سلمان غنی نے کہا کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بحران کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور انہیں نہیں لگتا کہ ان اسمبلیوں کا مستقبل محفوظ اور شاندار ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت عظمیٰ تو اس وقت کانٹوں کی سیج بن چکی ہے اور مہنگائی اور یوٹیلیٹی بل چارجز اس قدر زیادہ ہیں کہ نئی حکومت کو ان مسائل سے فرصت ہی نہیں ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا واحد حل قومی حکومت تھا جس میں ساری سیاسی جماعتیں شامل ہوتیں۔ انہوں ںے کہا کہ ’میری اطلاعات کے مطابق قومی حکومت کے حوالے سے بات چیت چلی تھی لیکن پھر بات نہیں بنی‘۔