ممکن ہے نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو مثال بنانے کے لیے ہرایا گیا ہو، خرم دستگیر

بدھ 14 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما و سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ہوئی ہے اور ایسا کرنے والے عوام سے اوجھل نہیں۔ ممکن ہے کہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو مثال بنانے کے لیے ہرایا گیا ہو۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے خرم دستگیر نے کہاکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ خیبر پختونخوا میں شفاف الیکشن ہوں اور پنجاب میں دھاندلی ہو۔

مزید پڑھیں

None found

سابق وفاقی وزیر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خرم دستگیر خان سے جب پوچھا گیا کہ ن لیگ کی تو ’بات ہو چکی تھی‘ پھر دھاندلی کس نے کی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ صرف پنجاب میں جہاں ن لیگ جیتی وہاں پر دھاندلی کے سوال کیوں اٹھائے جا رہے ہیں، اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو پورے ملک میں ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ خیبر پختونخوا میں اگر ایک جماعت کامیاب ہوئی ہے تو وہاں الیکشن شفاف ہوئے ہیں اور پنجاب میں جہاں ن لیگ جیتی وہاں دھاندلی ہوئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تو وہاں بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھائے جا رہے۔

خرم دستگیر الیکشن کیسے ہارے؟

حالیہ الیکشن میں اپنی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا، جیسا کہ جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ الیکشن ایک اکھاڑے کی مانند ہے اور اس میں شامل ہر شخص کو کیچڑ میں لت پت ہونا پڑتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اس الیکشن کے پورے عمل میں ہم سب کیچڑ میں نہلائے گئے ہیں۔ پولنگ بند ہونے کے لمحے سے اب تک ایک عجیب ہیجان ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس بار ہم نے بہت محنت سے الیکشن مہم چلائی اور انتحابات کو بالکل آسان نہیں سمجھا۔ ہم گوجرانوالہ کے ہر علاقے میں گئے اور لوگوں سے بات کی، جنہوں نے بہت محبت دی، میں اس پر عوام کا شکرگزار ہوں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہاکہ الیکشن کے نتائج ہم سب کے لیے حیران کن تھے۔ شہر میں قومی اسمبلی کی اڑھائی نشتسیں ہیں۔ میرے علاوہ دونوں امیدواروں کو اللہ نے کامیابی دی لیکن پورے ضلع میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ خیال تھا کہ شہر میں مہنگائی کی وجہ سے ردعمل آئے گا لیکن دیہی علاقوں میں صورتحال ہمارے حق میں ہوگی۔ ’حیرانی کی بات یہ ہے کہ شہر کی 3 میں سے 2 نشتیں تو ن لیگ جیت گئی، مگر دیہی نشستوں میں دوسرے امیدوار کامیاب ہوئے‘۔

خرم دستگیر نے مزید کہاکہ الیکشن نتائج کی وجہ سے عجیب سا ہیجان بنا ہوا ہے۔ پورا ملک کہہ رہا ہے کہ یہ ایک لہر جو خیبر پختونخوا سے چلی اور شمالی پنجاب میں آ کر ختم ہو گئی۔

’یہ لہر راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال میں ختم ہو گئی اور گجرات کے بعد پھر چلنا شروع ہو گئی، گوجرانوالہ سے گزری، لاہور سے گزری اور پاکپتن تک پہنچی اور اس کے بعد پھر ختم ہو گئی۔ اس کے بعد پورے ملک میں نظر نہیں آئی۔ مجھے تو یہ عجیب سی دو طرفہ دھاندلی کی کہانی لگ رہی ہے‘۔

نواز شریف کے قریبی ساتھی کیوں ہارے؟

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں مثلاً خواجہ سعد رفیق، جاوید لطیف، رانا ثنااللہ اور خرم دستگیر کو مثال بنانے کے لیے جان بوجھ کر ہرایا گیا ہو۔ ’لگتا ہے کہ ان تمام لوگوں کی قربانی اس الیکشن کی ساکھ رکھنے کے لیے دی گئی ہے‘۔

خرم دستگیر نے کہاکہ ان کے حلقے کے بعض پولنگ اسٹیشنز میں سے فی اسٹیشن کم از کم 700 یا 800 بیلٹ پیپرز غائب کیے گئے کیونکہ ان اسٹیشنز پر دن کے 12 بجے ہی بیلٹ پیپرز ختم ہو گئے تھے اور نئے منگوانے پڑے تھے۔ کئی اسٹیشنز پر مہر بار بار غائب ہو جاتی تھی۔ پورے دن کی پولنگ کے بعد ٹرن آؤٹ بہت کم تھا مگر آخر میں ٹرن آؤٹ یکدم زیادہ ہو گیا۔

’لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ چونکہ ہار گئے ہیں اس لیے الیکشن کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن یہ جو لہر جغرافیہ بدل بدل کر چلی ہے اور بعض مخصوص لوگ جیتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اور الیکشن ضرور ہوا ہے‘۔

عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت سے انکار ہے؟

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ وہ تسلیم نہیں کرتے کہ عمران خان کا بیانیہ ہاتھوں ہاتھ بکا ہے کیونکہ اگر ایسا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے اتنے لوگوں نے 9 مئی کی توثیق کر دی اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جناح ہاؤس اور ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگانا بہت اچھی بات ہے۔ ’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس دن پشاور میں 140 بے زبان جانور بھی جلائے گئے، پھر ان بے زبانوں کو جلانا بھی اچھی بات ہے اور گیٹ توڑنا بھی احسن عمل ہے‘۔

خرم دستگیر کے مطابق وہ اس وجہ سے اس ووٹ پر پریشان ہیں کہ اگر عمران خان کے بیانیے نے مقبولیت پائی تو وہ بیانیہ کس بات کے حق میں تھا؟ کیا وہ بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالنے کے لیے تھا؟ یا پھر یہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ووٹ نکلا ہے؟ یہ کیا ہوا ہے؟

سابق وفاقی وزیر نے کہاکہ مان لیتے ہیں یہ ووٹ میرے خلاف یا ن لیگ کے خلاف تھا، لیکن ہم نہیں جان پائے کہ یہ ووٹ ریاست سے کس چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہے؟ کیا یہ غصہ تھا کہ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے، اس کی بنیاد پر ووٹ پڑا ہے؟ اگر تو یہ ووٹ 9 مئی کے حق میں ہے اور اس کی تصدیق کر رہا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان میں فسطائیت کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اور دنیا میں پاکستان کوئی پہلا ملک نہیں ہو گا جس میں فسطائیت کو ووٹرز کی مدد حاصل تھی۔

پی ٹی آئی اور جرمنی کی نازی پارٹی

خرم دستگیر نے کہاکہ ٹھیک 100 سال پہلے 1923 میں نازی پارٹی نے بویریہ صوبے کی حکومت پر بالکل 9 مئی کی طرز کے تشدد کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کو تاریخ ’بئیر ہال پش‘ کے نام سے جانتی ہے۔ نازیوں نے 9 مئی جیسی پر تشدد واردات ڈالی، توڑ پھوڑ کی مگر ناکام ہوئے، جس طرح 9 مئی ناکام ہوا۔ اس واقعہ کے نتیجے میں ان کے لیڈر اڈولف ہٹلر کو 5 سال کی جیل ہوئی۔ لیکن ہٹلر بھی لاڈلا تھا، اس کو رہا کر دیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ ہٹلر نے اس واقعے بعد فیصلہ کیا کہ توڑ پھوڑ نہیں کریں گے۔ تب جرمنی میں بھی پاکستان کی طرح معاشی بدحالی تھی۔ 1928 کے انتخابات ہوئے اور نازی پارٹی کو 2 فیصد تک ووٹ پڑے، بہت ہی خراب حالات تھے لیکن 5 سال بعد ان کو 37 فیصد ووٹ ملے اور ہٹلر جرمنی کے چانسلر بن گئے۔ انہوں نے آتے ہی پارلیمنٹ کو آگ لگا دی اور اس کا الزام اپنے دشمنوں پر لگا کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ ہٹلر نے جرمنی سے تمام جمہوری قوانین کا خاتمہ کر دیا اور کہا کہ میں چانسلر ہوں لہٰذا ملک میری مرضی سے چلے گا۔ اس کا نتیجہ جرمنی کی تباہی کی صورت میں نکلا اور پوری دنیا نے دیکھا۔

آمریت کا مقابلہ فسطائیت سے نہیں کیا جا سکتا

خرم دستگیر نے ایک مرتبہ وہی سوال دہراتے ہوئے کہاکہ یہ ووٹ کس کو پڑا ہے؟ انہوں نے کہاکہ ایسے لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں عمران خان کو سپورٹ اور ووٹ کر رہے ہیں، ان سے میری گزارش ہے کہ آمریت کا مقابلہ فسطائیت سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو بیماری سے بدتر علاج ہے۔

تشدد کا سیاسی استعمال

انہوں نے اقتدار لینے اور پھر اسے برقرار رکھنے کے لیے تشدد کے سیاسی استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس الیکشن میں ہم نے ایسی خطرناک ڈھلوان پر قدم رکھ دیا ہے کہ حکومت بنانے والی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر سوچنا پڑے گا۔

ہم سوشل میڈیا کی وجہ سے ہارے

ن لیگ کی الیکشن میں ناکامی کا سبب بننے والی غلطیوں پر بات کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہاکہ اکیسویں صدی کے ذرائع ابلاغ نے سیاست کا طریقہ کار بدل دیا ہے، ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے جس نے کبھی اخبار نہیں پڑھا اور جس کی معلومات کا ذریعہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں۔

روایتی میڈیا کے استعمال اور اخباروں میں اشتہار دینے کے حوالے سے لیگی رہنما نے کہاکہ اب پارٹی اپنی انویسٹمنٹ کا 85 سے 90 فیصد حصہ سوشل میڈیا پر کرے گی کیونکہ موجودہ نسل تو ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتی، وہ انسٹا اور ٹک ٹاک پر آنے والے کلپ دیکھتی ہے۔

ن لیگ اپنے ووٹر کو موٹیویٹ نہیں کر سکی

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ن لیگ کا ووٹر درمیانی عمر کا تھا جسے وہ موٹیویٹ نہ کر سکی۔ دوسری جانب نوجوان ووٹر جسے سوشل میڈیا کے ذریعے قائل کیا جا رہا تھا وہ باہر آ گیا اور اس نے ووٹ ڈال دیا حالانکہ الیکشن کی گراؤنڈ گیم ن لیگ کے حق میں تھی جبکہ آزاد امیدوار تو گھوسٹ امیدوار تھے جو گراؤنڈ گیم کا بھی حصہ نہیں تھے۔

مریم نواز وزیرِاعلیٰ پنجاب ہوں گی؟

مریم نواز کو وزیرِاعلیٰ پنجاب کے طور نامزد کرنے کے سوال پر خرم دستگیر نے کہاکہ ابھی تک تو پارٹی کا یہی فیصلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بھی اپنے قائد کو پنجاب میں اکیسویں صدی کی حکومت بنانے کی رائے دی تھی۔

نواز شریف صدر ہوں، ن لیگ اپوزیشن میں بیٹھے

وفاق میں حکومت بنانے یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے سوال پر لیگی رہنما نے کہاکہ ان کی رائے یہ تھی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی جائے اور ان کو یہ یقین دلائیں کہ عدم اعتماد آنے کی صورت میں ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ لیکن ہم خود اپوزیشن میں بیٹھیں اور بھرپور مزاحمت کریں۔

انہوں نے کہا کہ صدر نواز شریف کو بننا چاہیے اور باقی عہدوں پر گفتگو ہو۔ پارٹی کی بقا بھی اپوزیشن جوائن کرنے میں ہے کہ وہ معاشی پالیسیوں پر بھرپور مزاحمت کرے۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ پارٹی کارکنوں کی خواہش ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم بنیں کیونکہ ان کا پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا بہترین ریکارڈ ہے۔

کیا دوبارہ الیکشن کا امکان ہے؟

ملک میں دوبارہ الیکشن کے امکان پر خرم دستگیر نے کہاکہ بالکل ایسا ہو سکتا ہے لیکن پہلے تمام جماعتوں کو مل کر سوچنا ہو گا کہ ابھی جیسے الیکشن ہوئے ہیں دوبارہ ایسے نا ہوں تب جا کر ہی شاید عوام کسی ایک پارٹی کو واضح مینڈیٹ دے سکیں گے۔ پاکستان کو استحکام چاہیے اور اگر اس سسٹم سے استحکام نہیں آتا تو بلاشبہ نئے انتخابات ایک حل ہو سکتے ہیں۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp