عام انتخابات سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اس وقت شدید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور ہر خاص و عام یہ کہہ رہا تھا کہ فوری عام انتخابات کا انعقاد ملک میں استحکام کے لیے بہت ضروری ہے لیکن 8 فروری کو ہونے والے انتخابات اور پھر ان کے نتائج سامنے آنے کے بعد ملک میں عدم استحکام مزید بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی، نون لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کر رہی اور اس حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں بڑے عوامی احتجاج بھی شروع ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
جعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب ملک کی تقدیر کا فیصلہ ایوان میں نہیں میدان میں ہوگا اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتیں بھی بھرپور احتجاج کر رہی ہیں اور امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس احتجاج میں شدت آئے گی۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد ملک میں استحکام آئے گا۔
سہیل وڑائچ
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے، اب فیصلے پارلیمان میں ہونے چاہییں سڑکوں پر نہیں، جن سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات کے نتائج پر تحفظات ہیں وہ ایک فطری عمل ہے اور یہ وقتی غصہ ہے جو کہ کچھ وقت کے ساتھ یہ غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اس وقت پارلیمان کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے اور ملک میں استحکام پارلیمان کو مضبوط کرنے سے ہی آئے گا، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا حال ہی میں اتحاد رہ چکا ہے، اگر مقتدرہ کا ساتھ ہوا تو امید ہے کہ یہ اتحاد مزید 5 سال تک رہے گا۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہان کے درمیان سخت لفظی جملوں کا تبادلہ ہو چکا ہے، یہ رہنما ایک دوسرے کے قریب کبھی نہیں رہے اور نہ ہی مفاہمت پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اس لیے اپنے اپنے ایجنڈے کے لیے تو احتجاج ایک ساتھ کر سکتے ہیں لیکن اپوزیشن اتحاد نہیں کر سکتے۔
انصار عباسی
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، احتجاج ہوتے ہیں لیکن حکومت کی تشکیل اپنے وقت پر ہو جاتی ہے، اس مرتبہ دھاندلی کے الزامات میں زیادہ شدت ضرور ہے اور ہو سکتا کے کہ لانگ مارچ بھی ہو جائے لیکن یہ حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ نہیں بننے گا، اس وقت ملک نئے انتخابات کی طرف بھی نہیں جا سکتا، سیاسی جماعتوں کے پاس عدالتوں اور الیکشن کمیشن کا راستہ بھی موجود ہے۔
انصار عباسی نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد کے حوالے سے کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا، ایک مثبت بات یہ ہے کہ کل جب مولانا فضل الرحمان سے بات کی گئی تو انہوں نے پی ٹی ائی کے حوالے سے نرم لہجہ رکھا اور کہا کہ ان سے بات چیت ہو سکتی ہے اور آج اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ جے یو آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت کریں، ان جماعتوں کی پرانی بڑی دشمنی اب ختم ہو رہی ہے اور دوستی کی طرف کا سفر شروع ہو رہا ہے، دونوں جماعتیں احتجاج تو ایک ساتھ کر سکتے ہیں لیکن اتحاد کہ حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انصار عباسی نے کہا کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت آئندہ 5 سالوں تک قائم رہے گی یا نہیں رہے گی یہ کہنا ہے ابھی قبل از وقت ہوگا، اس وقت ملک کی ضرورت ہے کہ جو حکومت تشکیل دی جائے وہ مضبوط حکومت ہو اور طویل عرصے تک کام کرے، ملک کے معاشی حالات بھی سیاسی عدم و استحکام کے متحمل نہیں کو سکتے، اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوشش یہ ہے کہ جو بھی حکومت تشکیل پائے وہ 5 سالہ مدت پوری کرے، اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں عدم استحکام بڑھے گا اور معاشی طور پر ڈیفالٹ کا خطرہ ایک دفعہ پھر سے منڈلانے لگے گا۔
ارشاد عارف
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار ارشاد عارف نے کہا کہ تحریک انصاف نے کہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے اور پارلیمنٹ میں فائٹ کریں گے اور پی ٹی آئی نے اپنا وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی نامزد کیا ہے، اب احتجاج اور پارلیمنٹ ساتھ ساتھ چلیں گی اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ماضی بھی ایسا ہوتا رہا ہے، اس طرح کی صورتحال میں جب بہت ساری جماعتیں سڑکوں پر ہوں گی تو کیا ملک میں استحکام آ سکتا ہے، یہ پارلیمنٹ کی قوت اور طاقت حاصل کر سکتی ہے، یہ آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں، یہ بنیادی سوال ہے کہ اس کے بارے میں سب کو سوچنا چاہیے، اس بارے میں بہت زیادہ جو ذمہ داری ہے وہ الیکشن کمیشن کی ہے جس نے الیکشن کرائے لیکن منصفانہ اور آزادانہ شفاف الیکشن نہ کرا سکا، الیکشن نتائج پر سب کو تحفظات ہیں۔
ارشاد عارف نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تاکہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو، سیاسی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر اس وقت لاتی ہیں جب وہ عوام کو احساس دلاتی ہیں کہ سسٹم پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور جو فیصلہ عوام کرنا چاہتے ہیں اس کو رد کر دیا جاتا ہے اور سسٹم اپ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اس وقت بھی الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے پاس وقت ہے کہ وہ امیدواروں کی الیکشن نتائج کے حوالے سے شکایات کا ازالہ کریں اور میرٹ پر فیصلے دیں، عدالتوں کو بھی الیکشن کمیشن کی معاونت کرنی چاہیے۔
ارشاد عارف نے کہا کہ حالیہ عام انتخابات میں عوام نے عدالت بہت سارے عدالتی فیصلوں کو ریجیکٹ کیا ہے اپنے مینڈیٹ کے ذریعے، عدالتیں ہوں یا الیکشن کمیشن ہو یا پارلیمنٹ ہو ان سب سے زیادہ اہم عوام ہیں، عوام کے فیصلے کو اہمیت ملنی چاہیے پھر اس ملک میں پارلیمنٹ مضبوط بھی ہوگی اور مستحکم سیاسی نظام بھی ائے گا اور کوئی منتخب حکومت اپنی 5 سالہ مدد کو پوری کر پائے گی۔