کامیاب خواتین ارکان اسمبلی عام خواتین کے لیے کیا کریں گی؟

جمعہ 16 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے عام انتخابات 2024 میں بڑی سیاسی جماعتوں کی 12 خواتین نے سخت مقابلے کے باوجود مرد امیدواروں کو شکست دی اور قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ مثبت بھی خواتین کے رویے کو ہی قرار دیا گیا۔ کیونکہ نا صرف خواتین کی ایک بڑی تعداد ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلی بلکہ جنرل نشستوں پر سخت مقابلے کے باوجود چند خاص حلقوں سے کامیابی حاصل کرنے والی خواتین نے مثال بھی قائم کی ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ خواتین کا انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا معاشرے میں سدھار پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سدھار اس وقت سامنے آئے گا جس وقت قومی اسمبلی میں یہ خواتین معاشرے کی باقی خواتین کے سنجیدہ مسائل کو نہ صرف اجاگر کریں گی بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے اپنا عملی کردار بھی ادا کریں گی۔

واضح رہے کہ ان 12 خواتین میں کچھ چہرے عوام اور سیاست کے لیے بالکل نئے ہیں۔ مریم نواز سمیت 4 خواتین انیقہ بھٹی، عائشہ جٹ اور عمبر نیازی پہلی بار قومی اسمبلی کے ایوان میں براجمان ہوں گی۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق پشاور سے شاندانہ گلزار، حافظ آباد سے انیقہ مہدی بھٹی، وہاڑی سےعائشہ نذیر جٹ، لیہ سے عنبر مجید نیازی اور ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل سخت مقابلے کے بعد کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ پانچوں خواتین پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہیں۔

اسی طرح ن لیگ سے تعلق رکھنے والی نومنتخب ممبران اسمبلی میں لاہور سے مریم نواز، سیالکوٹ سے نوشین افتخار، ننکانہ صاحب سے شذرہ منصب اور وہاڑی سے تہمینہ دولتانہ مخالف امیدواروں کو شکست دے کر ایوان میں پہنچی ہیں۔

سندھ سے بھی 3 خواتین نے مقابلے کے بعد فتح اپنے نام کی ہے۔ ان میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی شازیہ مری نے سانگھڑ اور نفیسہ شاہ نے خیرپور سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کی آسیہ اسحاق نے کراچی سے جیت اپنے نام کی۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 232 سے ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما آسیہ اسحاق نے فتح حاصل کی۔

قرآن نے عورت کو عزت دی مگر پاکستانی معاشرہ اس کے برعکس ہے، آسیہ اسحاق

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے آسیہ اسحاق نے بتایا کہ پاکستان کا آئین قران و احادیث پر مبنی ہے۔ اور قرآن نے عورت کو جتنی عزت دی پاکستانی معاشرہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہر جگہ پر مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے لیے عورتوں کی اسمبلی میں نمائندگی انتہائی اہم ہے۔

خواتین کو ایک وقت کا کھانا دیا جائے گا

مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارے منشور میں بھی ہم نے واضح کیا تھا کہ ہم 5 سے 14 سال کے بچوں کو دودھ دیں گے کیونکہ پاکستان میں 46 فیصد بچے غذائیت کی کمی میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی مائیں بھی صحتمند نہیں ہوتیں، جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ان تمام ماؤں کو ایک ٹائم کو کھانا دیں گے۔ جس سے ماں اور بچے صحتمند رہیں گے۔

انہوں نے کہاکہ گھروں میں عورتوں کو وہ عزت نہیں مل رہی ہوتی جو ہمارے دین نے دی ہے۔ اس چیز کو ختم کرنے کے لیے این جی اوز کے ساتھ مل کر گھر گھر کاؤنسلنگ مہم چلائی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی باقی دنیا کی طرح خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہیں نہیں دی جاتیں، اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائیں گے اور اس کا حل بھی نکالیں گے۔

انہوں نے کہاکہ وہ تمام قوانین جو عورتوں کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ان کے نفاذ کے لیے بل پاس کروائیں گے۔

ثریا بی بی کی کامیابی نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا

خیبرپختونخوا کے سب سے دور افتادہ علاقے اپر چترال سے تعلق رکھنے والی ثریا بی بی کی کامیابی نے بھی بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ جنہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گی۔

انہوں نے کہاکہ اپر چترال کی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن یہاں سے میں پہلی خاتون ہوں جس نے الیکشن میں نا صرف حصہ لیا کامیابی بھی حاصل کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب میں اس سطح پر آ گئی ہوں جہاں میں یہاں کی باقی خواتین کا سہارا بن سکتی ہوں اور انہیں ہر میدان میں آگے لا سکتی ہوں، تو اس حوالے سے میں ہر جگہ موجود رہوں گی، اور اپنے علاقے کی خواتین کو تمام حقوق دلواؤں گی اور ان کی آواز بنی رہوں گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ جیت میری نہیں بلکہ چترال کی تمام خواتین کی ہے کیونکہ جب میں انتخابی مہم چلا رہی تھی اس پورے ٹائم میں تمام چترال کی خواتین میرے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، میں نے گھر گھر جا کر چترال کے آخری کونے تک مہم چلائی، جس میں خواتین میرے ساتھ رہی ہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ مجھے فتح حاصل ہوئی۔

’چترال کے دور دراز علاقوں میں کالجز اور یونیورسٹیاں بنانا اولین ترجیح‘

انہوں نے مزید کہاکہ چترال کے دور دراز علاقوں میں خواتین کو تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔ میری اولین ترجیح ہوگی کہ گاؤں کی سطح پر کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کروں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں، کیونکہ جب خواتین پڑھی لکھی ہوں گی تو وہ بہتر طریقے سے اپنے حقوق کی آواز اٹھا سکیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp