سپریم جوڈیشل کونسل نے مظاہر نقوی کے بیٹوں کو بطور گواہ طلب نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کونسل نے اٹارنی جنرل کو مظاہر نقوی کے بیٹوں کی حد تک نوٹسز واپس لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے آج 4 گواہان کے بیانات بھی قلمبند کیے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا اوپن اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں ہوا، کھلی عدالت میں ہونے والے اجلاس میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی بھی شامل تھے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو سرکاری پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے، جس کے بعد کونسل نے مزید کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہم ٹیکس کے پیسے سے یہ کارروائی کرتے ہیں، جہاں 2 ججز دوسرے صوبوں سے آتے ہیں۔
’ہمیں اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ سپریم کورٹ کے بینچز میں یہ معاملہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر کوئی اسٹے نہیں دے رکھا‘۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ معاملہ اگر لٹکا رہتا تو ہم پر تنقید ہوتی کہ کارروائی ختم کیوں نہیں کی، کچھ دیگر ججز کے خلاف بھی شکایات ہیں ان کو ان کیمرہ اجلاس میں دیکھا جائے گا۔ موجودہ کارروائی جج کی درخواست پر اوپن ہوئی۔
چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ مظاہر نقوی کو معلوم ہو گا کہ یہاں کیا کارروائی ہو رہی ہے، اگر کسی گواہ پر جرح کرنا چاہیں یا جواب دینا ہے تو آسکتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط
اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے سپریم جووڈیشل کونسل کو خط لکھا اور کہا کہ آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کے مطابق ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار نہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے مؤقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ان کے استعفیٰ دینے کے باوجود جاری ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ وہ 10 جنوری کو مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ صدر مملکت نے ان کا استعفیٰ بھی منظور کر لیا ہے، استعفیٰ کی منظوری کا نوٹیفیکیشن آفیشل گزٹ میں شائع ہوچکا ہے۔
سابق جج مظاہر نقوی نے اپنے خط میں مزید کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا 12 جنوری کا حکم غیر آئینی ہے، اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئینی اور قانونی طور پر کونسل کی اس کارروائی کا حصہ بننے کا پابند نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کے استعفیٰ کے اگلے روز سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے خلاف کارروائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گزشتہ روز جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس کی کارروائی میں ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم جوڈیشل کونسل کی مزید معاونت سے معذرت کرلی تھی اور کہا تھا کہ ان کا وکالت نامہ جسٹس نقوی کے جج ہونے تک ہی تھا۔
تاہم، سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کی کارروائی جاری رکھتے ہوئے کل 7 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے تھے اور کارروائی آج بروز جمعہ تک ملتوی کی تھی۔
کیا ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کر سکتی ہے؟
عافیہ شیربانو نے سابق چید جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس پر جولائی 2020 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ریاٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ تاہم عافیہ شیر بانو نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔
ریٹائرڈ ججز کیخلاف کارروائی سے متعلق عافیہ شیربانو کیس سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ 19 فروری کو سماعت کرے گا۔ عدالت نے فریقن کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
وفاقی حکومت اور عافیہ شیربانو نے 8 مارچ 2019 کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ ریٹائرڈ اور مستعفی ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔
یہ اپیل اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس اپیل کے فیصلے کا اثر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور دیگر ریٹائرڈ یا مستعفی جج صاحبان پر پڑ سکتا ہے۔