اسلام آباد میں حکومت کسے بنانی ہے، ابتدا میں جو خبریں آئیں، ان کی مدد سے ایک تصویر بنتی نظر آتی تھی لیکن منظر اب پھر دھندلا ہے۔ تصویر کا شاید یہی دھندلا پن تھا جس نے مولانا فضل الرحمان کو مایوس کیا اور انہوں نے پی ٹی آئی کے وفد کو باریابی کی اجازت دی لیکن جہاں تک پنجاب اور بلوچستان کا معاملہ ہے، تصویر بہت حد تک واضح ہے اور ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ یوں سمجھ میں آ سکے گا کہ ریاست و سیاست کے معاملات میں کون کہاں کھڑا ہے اور کتنا سنجیدہ ہے۔
اگر جناب سہیل وڑائچ کی بات پر توجہ دیں تو خیبرپختونخوا کے انتخابی نتائج پر بھی شکوک و شبہات کے بہت سے سائے ہیں لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ اس صوبے میں پی ٹی آئی کے لوگ بڑی تعداد میں صوبائی اسمبلی میں آئے ہیں۔ اسمبلی میں اس تعداد کو دیکھتے ہوئے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہی جماعت حکومت بنائے گی۔ اسی سبب سے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح وغیرہ کے معاملات میں سزا پانے والے عمران خان نے اپنی جماعت کی طرف سے علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے۔
یہ تو کسی بھی جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنی نمائندگی کے لیے جسے چاہے نامزد کرے اور منتخب کرائے لیکن شہری کی حیثیت سے پاکستان کا ہر شہری یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس انتخاب پر تنقیدی نظر ڈالے اور اس کے مثبت اور منفی پہلو سمجھنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک علی امین گنڈاپور کی نامزدگی کا معاملہ ہے، اسے دیکھ کر اس جماعت کی طرف سے ماضی میں کی گئی نامزدگیوں کی یاد آتی ہے۔
2018 میں اس جماعت کو اقتدار ملا تو پنجاب میں عثمان بزدار کو لگایا گیا اور خیبرپختونخوا میں محمود خان کی لاٹری نکلی۔ اس موقع پر باہر سے ہی ایک نہیں خود پارٹی کے اندر سے بھی اختلافی آوازیں اٹھیں کہ یہ انتخاب مناسب نہیں کیونکہ یہ دونوں شخصیات صوبوں کی ذمے داری اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ خطرہ ہے کہ یہ انتخاب تباہی کا باعث بنے گا۔ حالات نے ثابت کیا کہ یہ خدشات درست تھے۔
2024 کے انتخاب کے بعد کچھ ایسی صورت حال ہی خیبرپختونخوا میں درپیش ہے۔ علی امین گنڈاپور ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھٹو دور میں ان کے بزرگ جناب عنایت اللہ گنڈاپور وزیر اعلیٰ سمیت صوبے کی بڑی ذمے داریوں پر متمکن رہے ہیں۔ ان سے سیاسی طور پر اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی شخصیت اور طرز عمل پر آج تک کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ جبکہ علی امین گنڈاپور کی شخصیت مختلف ہے۔ انہیں ایک غیر سنجیدہ اور لٹھ باز قسم کا سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ گزشتہ حکومت میں عمران خان نے انہیں امور کشمیر جیسے انتہائی حساس محکمے کا وزیر بنایا جس کی مبادیات سے بھی وہ ناواقف تھے۔
اب انہیں خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بنائے جانے کا امکان ہے۔ یہ ایک حساس صوبہ ہے۔ اس کی حساسیت کا ایک پہلو اس کا افغانستان کے ساتھ متصل ہونا ہے۔ افغانستان ایک حساس اور بے چین خطہ ہے جس کا عدم استحکام اڑوس پڑوس پر فوری طور پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا پر۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود پی ٹی آئی ہی کے دور حکومت میں وہاں ہزاروں عسکریت پسند لا کر بسائے گئے۔ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی وہاں دہشتگردی کی اور اب انتخابات کے زمانے میں بھی عوام کو چین نہیں لینے دیا جس کا سب سے بڑا ہدف مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علما اسلام بنی۔ ایسے صوبے میں حکومت سازی کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ وہاں نہ محمود خان جیسا شخص مناسب ہو سکتا تھا اور نہ علی امین گنڈاپور پور جیسی شخصیت مناسب ہے۔ ایسے حساس مقام پر نہایت زیرک اور معاملہ فہم قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو یہ صوبہ سیاسی طور پر بھی عدم استحکام سے دوچار ہو جائے گا اور انتظامی اعتبار سے بھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان ان نزاکتوں کو خاطر میں نہیں لاتے یا پھر وہ اس کا شعور ہی نہیں رکھتے۔
پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن ہے جس نے پنجاب میں جو خیبر پختونخوا کے مقابلے میں مستحکم صوبہ ہے، مریم نواز شریف کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس جیسے خیالات رکھنے والے طبقات کی طرف سے مریم نواز پر یہ اعتراض تو ہے کہ کوئی اور کیوں نہیں، میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہی کیوں لیکن ایسا اعتراض کوئی نہیں کر سکا کہ وہ اہل نہیں ہیں۔ وہ نا صرف اہل ہیں بلکہ ان کی پشت پر اپنے والد اور چچا کا دہائیوں پر مشتمل تجربہ بھی ہے۔ مریم نواز اگر پنجاب کی قیادت کرتی ہیں تو وہاں خیبر پختونخوا جیسے بحران پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں بلکہ توقع یہی ہے کہ ان کی قیادت میں وہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے جو عثمان بزدار اور بعد کے عدم استحکام کے زمانے میں پیدا ہوئے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی ان مثالوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ پنجاب میں کی جانے والی نامزدگی ظاہر کرتی ہے کہ ن لیگ ریاست و سیاست کو ایک سنجیدہ اور حساس ذمے داری تصور کرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا رویہ مختلف ہے۔ اس کی طرف سے 2018 سے لے کر اب تک کی جانے والی تقرریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرتے وقت اس کے سامنے ریاست و سیاست کی حساسیت اور اس کے تقاضے نہیں ہوتے بلکہ سیاسی کشمکش میں اپنا مفاد اور ضد ہوتی ہے۔ کبھی ایسا کرتے وقت وہ اپنی ضعیف الاعتقادی کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی کسی ایسی کمزور شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں جو عمران خان کے سامنے کھڑی نہ ہو سکے اور کبھی ان کے پیش نظر دباؤ کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے لیے علی امین گنڈاپور کا انتخاب ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے، اگر وہ کسی شرط پر پورا نہیں اترتا تو وہ ایک ہی شرط ہے، ریاست کے باب میں حساسیت اور ذمے داری کی۔ کیا پاکستان کو ایسے غیر ذمے دار عناصر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے لوگوں کے ہاتھ اور دل نہیں کانپتے؟