‘بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی’

پیر 19 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صدر ضیا الحق مرحوم کے جنازے میں کسی نے اس شعر کو بینر پر لکھوا دیا تھا:
’بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘
جنازے کے ساتھ ساتھ بینر بھی چلتا رہا، اظہر لودھی کمنٹری کر رہے تھے، یہ شعر بار بار کیمرے سے فوکس ہوتا رہا۔ یہاں سے لوگوں نے شعر کو اُچک لیا۔ ڈائریوں میں لکھا گیا پھر یہ شعر کتبوں پر آ گیا۔ اللہ کا خاص کرم ہے ورنہ جتنا میں شاعری میں غیر سنجیدہ تھا تو شاید کبھی ایسا نہ ہوسکتا کہ میرا کوئی شعر ہٹ ہوتا۔

شاعر اور پبلشر خالد شریف 18 جون 1947 کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد راولپنڈی میں سکونت اختیار کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے بالترتیب معاشیات، اردو اور فارسی میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔ 1970 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا جبکہ 1976 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کی اور ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ماورا پبلشنگ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اور گزشتہ 30 برس سے اس شعبے سے وابستہ ہیں۔

ان کے 4 شعری مجموعے بالترتیب، نارسائی، بچھڑنے سے ذرا پہلے، گزشتہ اور ’وفا کیا ہے‘ شائع ہوچکے ہیں۔ غزلوں کا انتخاب ’رت ہی بدل گئی‘ اور نظموں کا انتخاب ’کسی کمزور لمحے میں‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ برطانیہ، ناروے، بھارت، عرب امارات اور قطر میں مشاعرے پڑھ چکے ہیں۔

ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میری زندگی کا ابتدائی زمانہ راولپنڈی شہر میں گزرا ہے۔ پیدائش تو میری انبالہ کی ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہم راولپنڈی آ بسے۔ وہیں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، مشن ہائی اسکول سے میٹرک، گورنمنٹ کالج اصغرمال سے گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کی، اسی دوران میرے شعری سفر کا آغاز ہوا۔

شاعری کا آغاز کیسے ہوا؟

گورنمنٹ کالج اصغرمال میں اردو مجلس ہوا کرتی تھی۔ اس وقت اساتذہ میں اہل ذوق لوگ بھی تھے جن میں مہر اکبر آبادی اور فتح محمد ملک تھے۔ اردو مجلس کے زیراہتمام ایک سالانہ مشاعرہ بھی ہوا کرتا تھا جس میں ’طرح‘ دی جاتی تھی جس پر طالب علم غزل لکھا کرتے ہیں۔ کالج میں ملنے والی ’طرح‘ پر میں نے غزل کہی اور اتفاق سے اس غزل کو پہلا انعام مل گیا جس سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔ ان دنوں روزنامہ ’تعمیر‘ بہت فعال تھا، اس میں کافی پذیرائی ہوئی۔

پھر کالج نے مجھے بین الکلیاتی طرحی مشاعروں میں بھیجنا شروع کر دیا، لاہور، گجرات، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پیر محل، لائل پور بلکہ کراچی سمیت مختلف شہروں میں جاتا رہا۔ یوں شعری تربیت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی، جن سے دوستی سرمایہ زندگی بنی۔
اس دور کے طالبِ علم اور آج کے مشہور صحافی اور شاعر اجمل نیازی سے کیمبل پور میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ میانوالی سے جبکہ میں راولپنڈی سے مشاعرہ پڑھنے گیا تھا۔ محمود شام جھنگ سے آتے تھے۔ سرمد صہبائی، فہیم جوزی، امجد اسلام امجد، عطاالحق قاسمی وغیرہ لاہور سے جبکہ عدیم ہاشمی، افتخار نسیم اور حسن نثار لائل پور سے شریک ہوتے تھے۔ ایسے اور بھی بڑے نام ہیں جن سے طرحی مشاعروں میں ملاقاتیں ہوئیں اور بعد میں وہ دوستی میں بدل گئیں۔

آپ نے لائل پور میں کافی عرصہ گزارا، وہاں کی ادبی فضا کے بارے میں کچھ بتائیں؟

پوسٹ گریجوایشن کرنے کے بعد محکمہ انکم ٹیکس میں ملازم ہو گیا اور میری پہلی پوسٹنگ لائل پور میں ہوئی۔ وہاں پہلے سے ادبی ماحول موجود تھا۔ ان دنوں وہاں ’سعادت‘ اخبار کا ادبی ایڈیشن ہر ہفتے شائع ہوتا تھا، جس کی ادارت تنویر جیلانی کیا کرتے تھے۔ ہم نے اس میں لکھنا شروع کردیا۔

وہاں کی ادبی محفلوں میں بہت اچھے اچھے شعرا سے میل ملاقات ہوئی۔ ان میں ریاض مجید، انور محمود خالد، احسن زیدی، تنویر جیلانی، حسن نثار ، افتخار نسیم اور عدیم ہاشمی وغیرہ شامل تھے۔ ہم ایک دوسرے کو شعر سناتے تھے، یوں ذوق کی تربیت ہوتی رہی۔ انہی دنوں مجھے خیال آیا کہ دوست احباب سے کچھ چیزیں لے کر شائع کرنی چاہئیں چنانچہ میں نے شعرا سے دس، 10 غزلیں لیں اور ایک کتاب مرتب کرکے ’نئی آوازیں‘ کے نام سے شائع کی جسے بے حد پذیرائی ملی۔

اس کے بعد وہاں کے معروف شاعر سلیم بیتاب کا شعری مجموعہ ’لمحوں کی زنجیر‘ کے نام سے شائع کیا۔ سلیم بیتاب کا بڑا مشہور شعر ہے جو اس کتاب میں شامل تھا۔
’میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی‘

آپ کا پہلا شعر؟

کالج کے زمانے میں طرحی غزل کہی تھی اس غزل کے اشعار ہی میں سے تھا:
’نشاطِ بیخودی سے جب تیرا دل آشنا ہوگا
تجھے فکرِ فنا ہوگی، نہ احساس بقا ہوگا‘

شعر ہی کو وسیلہ اظہار کیوں بنایا؟

اردو سے دلچسپی تو بچپن سے تھی، چوتھی جماعت میں بھی میرے استاد میری تختی دوسرے بچوں کو بطور نمونہ دکھایا کرتے تھے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے اور وہ میرے لیے باعث فخر تھا۔ چھٹی جماعت سے میں نے فارسی زبان و ادب پڑھنا شروع کیا اور اسے میں نے بہت دلچسپی سے پڑھا۔ اردو اور فارسی کا تعلق بہت گہرا ہے۔ فارسی کو اردو کی ماں کہا جاتا ہے چنانچہ جب میں نے پہلی غزل کہی اور اس کے بعد مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ میرے لیے بنا کاوش تھا۔

میں بغیر دقت کے شعر کہہ لیتا تھا جبکہ نثر لکھتے ہوئے مجھے دشواری ہوتی تھی۔ خود کو آمادہ کرنا پڑتا تھا۔ اب بھی میرا یہ حال ہے کہ ایک صفحہ نثر لکھنے کے بعد مجھے سانس چڑھ جاتا ہے۔ جبکہ شعر کہتے ہوئے یہ کیفیت نہیں ہوتی لہٰذا میں نے شعر ہی کو فوقیت دی۔

لیکن آپ نے کالم نگاری بھی کی ہے؟

جب روزنامہ جنگ راولپنڈی شروع ہوا تو وہاں میرا آنا جانا کافی تھا۔ وہاں میرے کئی دوست تھے۔ وہاں میری غزلیں تواتر سے چھپتی تھیں، بلکہ چھپتی کہاں تھیں خود غزل کتابت کروا کے اپنے ہاتھ سے پیسٹ کردیا کرتے تھے اور ساتھ تصویر بھی لگوالیا کرتے تھے۔

آپ کو علم ہو گا وہ مینول دور تھا اور اس وقت سیکیورٹی کے ایسے حالات بھی نہ تھے ہم دھڑدھڑ سیڑھیاں چڑھتے وہاں جاتے غزل دیتے، چائے پیتے اور گپ شپ لگاتے تھے۔ وہاں محفلیں کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ ہفتہ وار کالم تھا جس میں اکثر ادبی تقاریب کا احوال ہوتا تھا۔

فیملی میں کسی کو ادب کا شوق تھا یا آپ اکیلے ہی میدان ادب میں آ نکلے؟

بالکل نہیں تھا، میرے خاندان میں ننھیال کاروبار سے منسلک تھا اور ددھیال کاشت کاری کیا کرتا تھا۔ خاندان میں چند لوگ ہی واجبی پڑھے ہوئے تھے، ان کا شعر و شاعری سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ میں پہلا شخص تھا جس نے اس طرف طبع آزمائی کی۔

معاصرین میں خواتین شعرا میں کون کون شامل تھا؟

سینیئرز میں راولپنڈی کی حد تک پروین فنا سید اور رشیدہ سلیم سیمی تھیں اور جو ہم سے تھے ان میں ادا جعفری اور فہمیدہ ریاض تھیں۔ ہم سے جونیئرز میں نورین طلعت عروبہ وغیرہ تھیں۔

پروین شاکر بھی تو شاعری کی دنیا میں آچکی تھیں؟

وہ اس وقت کراچی میں تھیں اور پروین شاکر کی پہلی کتاب لگ بھگ اس دور میں چھپی جب میں لاہور آچکا تھا۔ اس زمانے میں پروین شاکر ٹی وی پر جلوہ افروز ہوتی تھیں اور ان کی خاصی پذیرائی بھی ہوتی تھی۔ اس دور میں وہ ’فنون‘ میں بھی چھپتی رہیں۔

آپ بھی تو ٹی وی پر جلوہ افروز ہوتے رہے ہیں؟

اس سے کچھ عرصہ قبل راولپنڈی میں قیام کے دوران میں نے ٹی وی پر کافی کام کیا ۔ الیکشن 70 کے پروگراموں میں میزبانی کی، پنجابی پروگرام ’ویلے دی گل‘ کا میزبان بھی رہا۔ اس دور میں کافی مسالمے، مشاعرے ہوتے تھے۔ اقبال انصاری، ایوب خاور اور جی ایم نثار حسین سے رفاقت رہی۔

تخلیقی کیفیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟

لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید شعر لکھنے کے لیے کوئی خاص کیفیت یا ماحول بنانے کی ضرورت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے، بعض اوقات چھ، 6 مہینے گزر جاتے ہیں، ایک شعر تک نہیں ہوتا جبکہ بعض اوقات محفل میں بیٹھے ہوئے حتیٰ کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی شعر ہو جاتے ہیں۔ فوراً گاڑی روک کر نوٹ کرنا پڑتے ہیں کہ ضائع نہ ہو جائیں۔ البتہ بعض اوقات اچھا مشاعرہ یا اچھے اشعار سن کر تحریک ضرور ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے آمد ایک یا 2 اشعار کی ہوتی ہے باقی ہنر مندی کام آتی ہے؟

بالکل 100 فیصد سچ ہے، یہ بات جس نے بھی کی بہت اچھی اور سچی بات کی کیونکہ وارد تو ایک 2 شعر ہی ہوتے ہیں اور باقی ہمیں کرافٹنگ کرنا پڑتی ہے اور اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ اصل اور جاندار شعر وہی ہوتا ہے جو آمد ہوتی ہے اور دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے کہ وہی شعر زندہ بھی رہتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی گروپ ادب میں کافی سرگرم عمل رہے، آپ کسی گروپ کا حصہ رہے؟

ڈاکٹر وزیرآغا سے میری ملاقاتیں مری میں ہوتی رہیں۔ وہ وہاں کیفے میں بیٹھتے تھے۔ وہاں خوب محفل جمتی تھی پھر میں یہاں آیا، یہاں قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی ہمیں کافی شفقت ملی لیکن مجھے اسی دور میں ایک ایسا شخص ملا جس نے میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا، وہ ہے ’محسن نقوی‘ محسن نے کہا تھا کہ خالد ہم نے اپنا گروپ بنانا ہے، کسی گروپ میں شامل نہیں ہونا۔‘ چنانچہ ہم نے اپنا چھوٹا موٹا گروپ تشکیل دیا جس میں ہم ہی ہم تھے۔

ہم نے شعر کہے، کتابیں چھاپیں، عملی طور پر ہم کسی گروپ کا حصہ نہیں بنے جس سے ہمیں بہت سے فوائد اور نقصانات بھی اٹھانا پڑے۔ نقصان اس ضمن میں کہ ہم کسی گروپ میں ہوتے تو شاید وہ ہمیں اٹھا کر بہت اوپر لے جاتا اور فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے کسی گروپ کے لوگوں کو ناراض نہیں ہونے دیا۔

گروہ بندی سے ادب کو نقصان ہوا یا فائدہ؟

وہ گروپ نرسریاں تھیں، ان سے بڑے اچھے اچھے لوگ نکلے۔ قاسمی گروپ سے پروین شاکر سے لیکر آج کے بڑے بڑے نام۔ وزیر آغا گروپ سے بھی بڑے بڑے تخلیق کار سامنے آئے۔ قاسمی صاحب اور آغا صاحب بطور انسان بڑی شخصیات ہیں۔ ’اوراق‘ اور ’فنون‘ اب عملاً بند ہوچکے ہیں۔ اب اس پائے کی نرسری نظر نہیں آتی جہاں نئے لکھنے والوں کی تربیت ہو اور وہ پروان چڑھ سکیں۔

منیر نیازی نے کہا تھا ’پروین عام شاعرہ تھی لیکن امجد اسلام امجد کی پی آر نے اسے مشہور کردیا، ایسا ہوتا ہے؟

ایسا ہوتا تو ہے، گروپ اپنے لوگوں کو اٹھاتا ہے لیکن صرف اٹھانے سے بھی کام نہیں بنتا جب تک اندر کچھ نہ ہو۔ یعنی بنیادی ٹیلنٹ تو ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ سطحی ٹیلنٹ کو گروپ اونچائی تک لے جائے لیکن ٹیلنٹ زیرو ہے تو اسے کوئی اوپر نہیں لے جا سکتا۔

پروین شاکر میں جان بھی تھی اور اسے گروپ بھی اچھا مل گیا۔ پروین کے ہاں ’فنون‘، قاسمی صاحب اور دوسرے عوامل بھی تھے جن میں اس کی شخصیت بھی تھی، اثرات بھی تھے۔ شاعری بھی اچھی تھی اور اسوقت ایک خلا بھی تھا جسے پروین نے پُر کیا۔ ان دنوں رومانوی شاعری نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے دلوں کے قریب تر شاعری کی، ان سارے عوامل سے ایک مجموعی تاثر بنا۔

کس شاعر سے متاثر تھے یا کسے پسند کرتے تھے؟

آغاز میں تو سب کلاسیک ہی پڑھتے ہیں اور میرا اول و آخر مرشد غالب ہے۔ غالب کو مذہبی کتابوں کی طرح پڑھا اور اب بھی پڑھتا ہوں۔ دیگر اساتذہ کو بھی پڑھا۔ ساحر لدھیانوی اور اختر شیرانی کو بھی پڑھا۔ ن م راشد اور فیض کو بھی پڑھا۔

آج کا شاعر سمجھتا ہے مجھے شعر کہنا آ گیا ہے اور مجھ سے بڑا شاعر کوئی نہیں ہے لہٰذا مجھے پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے حالانکہ پڑھنا تو بہت اہم ہے۔ مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ میں نے اردو شاعری کے علاوہ حافظ شیرازی سے بھی بہت فیض حاصل کیا۔ میں نے ان کو بہت سنجیدگی سے پڑھا ہے۔

شاعر کے اردگرد ہونے والی تبدیلیاں اس پر اثرانداز ہوتی ہیں؟

اگر شاعر اپنے اردگرد کی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہے اور ان کا اثر نہیں لیتا پھر تو وہ شاعر ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ گل و بلبل اور اپنی ذات کے اندر ہی جی رہا ہے۔ اسے اردگرد سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ ہم نے تو ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جنہیں جدوجہد کی نظمیں کہا جاسکتا ہے۔

’اوراق‘ اور ’فنون‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

نرسری تو یہ دونوں جرائد ہی تھے لیکن اگر سچی بات کی جائے تو پلہ ’فنون‘ ہی کا بھاری رہا کیونکہ ’فنون‘ تواتر سے نکلا اور کافی لوگ سامنے آئے لیکن اہمیت ’اوراق‘ کی بھی مسلم ہے۔’اوراق‘ کی ٹیم بھی کافی اہم ہے۔

’فنون‘ کا پلہ اس لیے بھاری رہا کہ میڈیا کی بیساکھی انہیں آگے لے آئی؟

بالکل اس کا عمل دخل بھی تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس گروپ کی بیس لاہور تھا، آغا صاحب سرگودھا بیٹھے تھے، وہ میڈیا سے دور تھے اور ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ’اوراق‘ کو چھاپنا گھر جلا کر تماشا دیکھنے والی بات تھی (مشکورعلی سے گفتگو میں کہا تھا)۔ دونوں کا ادب میں مساوی کردار ہے لیکن ’فنون‘ کا حجم زیادہ رہا۔ ’اوراق‘ نے انشائیہ کے لیے اور ’فنون‘ نے جدید غزل کے لیے بیش بہا کام کیا۔

’اوراق‘ میں جدید نظم بھی آ گئی؟

جی، ادھر جدید نظم آئی بہرحال دونوں کا کام برابر ہے۔

محض شاعری ہی ذریعہ معاش بن سکتی ہے؟

ایک، 2 شعرا نے شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا، مثلاً منیر نیازی نے ساری عمر شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا لیکن وہ مالی طور پر آسودہ نہیں رہے بہرحال وقار سے زندگی تو گزار دی۔ اسی طرح حبیب جالب نے تمام عمر شاعری پر گزارا کیا لیکن ان کے بعد ان کے بچوں کے حالات اتنے اچھے نہیں رہے۔

قتیل نے فلمی شاعری کو ذریعہ معاش بنا کر اچھی زندگی گزاری لیکن محض شاعری کے بل پر زندگی نہیں گزاری جاسکتی حالانکہ اس وقت جو صورتحال ہے آپ کو سن کر خوشی ہوگی کہ صفِ اول کے شعرا کی آمدن لاکھوں میں ہے۔ رائلٹی سے اچھی آمدن ہوجاتی ہے لیکن یہ بھی شروع سے شاعری پر ہی تکیہ نہیں کیے ہوئے تھے۔ وہ ملازمت یا کاروبار کرتے رہے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد رائلٹی پر زندگی بسر کررہے ہیں۔

اب شاعروں کی فاقہ مستی رنگ نہیں لاتی؟

نہیں، اب تو اتنی مہنگائی ہے، گھر کے تمام افراد ملازمت کرکے گزر بسر کرتے ہیں کجا ایک شاعر پرامید لگالی جائے۔

دس، 20 مصرعے کہے پھر ڈبے میں ڈال کر ہلایا اور انعام یافتہ نظم تیار کرلی؟

آپ سے منسوب ایک واقعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ آپ نے فخر عالم نعمانی کے ساتھ مل کر دس، 10 مصرعے کہے پھر اسے ڈبے میں ڈال کر ہلایا اور 10 مصرعوں کی نظم تیار کرلی اور احمد ندیم قاسمی نے آپ کو پہلا انعام بھی دے دیا اس میں کتنی حقیقت ہے؟

(ہنستے ہوئے، یہ بہت بڑا سکینڈل بن جائے گا بھئی) ہم شمع تاثیر کا مشاعرہ اٹینڈ کرنے کے لیے آ رہے تھے تو اس زمانے میں عجیب دور تھا کہ آزاد نظم بھی چل رہی تھی اور پابند نظم بھی۔ ہوتا یہ کہ کہیں ہم آزاد نظم لکھ کر لے جاتے تو وہاں ججوں میں منظور حسین شور بیٹھے ہوتے تھے، وہ گالیاں دیا کرتے تھے اور کاٹ دیتے تھے اور اگر ہم پابند نظم لکھ کرلے جاتے تو وہاں جج آزاد نظم والا نکل آتا تھا۔

میں اور فخر عالم نعمانی ٹرین سے آ رہے تھے۔ ہم نے نظمیں پابند لکھ رکھی تھیں، پتا چلا ججز میں قاسمی صاحب بھی بیٹھے ہیں، سجاد باقر رضوی بھی تھے۔ اس لیے ہم نے دورانِ سفر ہی مصرعے کہنے شروع کیے اور 50، 60 مصرعے کہہ لیے۔ پھر انہیں مکس کرکے نظم بنالی اور نظم نے مشاعرے میں انعام حاصل کرلیا۔ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں، ابہام میں سے بھی تو معانی نکل ہی آتے ہیں۔ نعمانی نے وہ نظم پڑھی تھی اور یوں انہوں نے انعام جیت لیا۔

یعنی شاعری ذاتی پسند ناپسند کا شکار ہے؟ کیا تنقید نگاری میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے؟

تنقید کے بارے میں شاید لوگ میرے خیالات سے اتفاق نہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں ایک شخص جسے شعر کہنے کی تمیز ہی نہیں، جس نے ایک مصرعہ موزوں نہیں کہا وہ شاعری پر تنقید کر رہا ہے۔ اس کے پاس کیا لائسنس ہے کہ وہ شاعری پر تنقید کرے۔ یہ اسی طرح کا ابہام ہے کہ ایک شخص جس نے ساری عمر کرکٹ نہیں کھیلی اسے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا جائے۔

ہمارے بڑے بڑے نقادوں کو مصرعہ وزن میں پڑھنا بھی نہیں آتا، کہنا تو دور کی بات ہے اور جہاں تک سمجھدار نقاد کی بات ہے وہ اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اس کی طبیعت موزوں ہونا لازمی ہے۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں، ہمارے بہت بڑے نقاد گزرے ہیں مشفق خواجہ ،وہ پہلے شعر کہتے تھے ’ابیات‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی آئی لیکن جب وہ سنجیدگی سے تنقید کی طرف آئے تو انہوں نے شعر کہنا چھوڑ دیا لیکن ان کے پاس لائسینس ضرور تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بڑی شاعری پر تنقید کر رہے ہیں اور خود سطحی اشعار کہہ رہے ہیں۔ اسی لیے اچھی تنقید کا کام ہمارے ہاں بہت کم ہوا، یہ بھارت میں صحیح اور بے تحاشا ہوا۔

اچھے نقادوں کے نام لینا پسند فرمائیں گے؟

مشفق خواجہ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، محمد علی صدیقی۔

شعر و ادب کے حوالے سے پاک بھارت موازنہ کیسے کریں گے؟

کوئی مقابلہ ہی نہیں، ہمارے ہاں تو چھوٹے چھوٹے قصبوں میں نوجوان جو شاعری کر رہے ہیں وہ پورے انڈیا میں ملا جلا کر بھی نہیں ہو رہی۔ چند نام ہیں جو اچھا شعر کہہ رہے ہیں جیسے، شہر یار، گلزار، منظر بھوپالی اور بشیر بدر وغیرہ۔ باقی تو ’خ‘ کو ’کھ‘ بول رہے ہیں۔ بے وزن اور سطحی شاعری ہو رہی ہے۔ ان کا انحصار صرف گانے پر ہے۔ ہمارے ہاں بہت شاندار شاعری ہو رہی ہے۔ بڑے ادبی مراکز کو چھوڑیں ہمارے بچے ہی ان سے بڑے اور اچھے اشعار کہہ رہے ہیں۔

لاہور، کراچی، اسلام آباد میں کون سا ادبی مرکز سبقت لیے ہوئے ہے؟

لاہور ہمیشہ لیڈ کرتا ہے، کراچی میں اہل زبان زیادہ ہیں۔ وہاں بھی اچھی شاعری ہو رہی ہے لیکن ہمیشہ پنجاب نے لیڈ کیا ہے۔ اقبال، فیض، مجید امجد اور منٹو پنجاب سے تھے۔ وہاں بھی اکبر آبادی آئے لیکن تقابل کیا جائے گا تو لاہور آگے ہوگا۔

شاعر، پبلشر اور بیورو کریٹ؟ 3 چیزیں ایک ساتھ چلانا کافی مشکل کام نہیں؟

جہاں تک بیورو کریسی کا تعلق ہے وہ بات ہم طے کر آئے ہیں کہ معاشرہ میں زندہ رہنے کے لیے نوکری یا کاروبار تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ وہ تو ذریعہ معاش تھا اس کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کی لیکن اس میں مشکل مقامات بھی آ جاتے تھے کہ میٹنگ میں کمشنر صاحب مجھے کہہ دیا کرتے تھے ’کیا بات ہے خالد صاحب کوئی شعر وارد ہو رہا ہے‘ حالانکہ ہم کام زیادہ کرتے تھے لیکن ہمیں یہ طعنہ بھی ملتا رہا۔

سرکاری نوکری کا زنگ اتارنے کے لیے فنون لطیفہ کی کسی ایک صنف کے ساتھ چلنا ازحد ضروری ہے ورنہ آدمی مشین بن کے رہ جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے محکمے میں شعر و ادب کی خاصی آبیاری ہوئی۔ ہمارے محکمے سے بڑے بڑے نام نکلے ہیں۔ مثلاً پرتو روہیلہ، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی، اکرام اعظم، خاور احمد، رحمان فارس، عبدالعزیز خالد شاعروں کے شاعر ہیں۔

میں نے پہلے شعر کہے پھر پبلشنگ شروع کی۔ شاعری میرے لہو میں نہیں تھی لیکن پبلشنگ تھی۔ راولپنڈی میں میرے 4 ماموں ہیں۔ چاروں کے پرنٹنگ پریس ہیں اور وہی میرے کھیلنے کودنے کی جگہ بھی تھی۔ میں بچپن سے انہیں دیکھتا رہا، آہستہ آہستہ میں نے کمپوزنگ، ڈسٹری بیوشن اور مشینیں چلانا بھی سیکھ لی تھیں۔

لیاقت روڈ پر جس جگہ میری رہائش تھی اس کی بیسمنٹ میں بھی ایک پرنٹنگ پریس تھا۔ پریس میں چلے جاتے تھے وہاں مختلف کاموں کا جائزہ لیتے رہتے، اس طرح کچھ رحجان بنا تھا۔ جب میں لائلپور سے واپس راولپنڈی آیا تو میں اپنے دوست سے ملا جن کی کشمیری بازار میں کتابوں کی دکان تھی۔

ان سے میل ملاقات بہت زیادہ رہا، اس سے ایک تو مجھے بہت زیادہ کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور دوسرا مجھے اس بات کا علم بھی ہوگیا ہے کہ کتابیں کہاں سے آتی ہیں کیسے آتی ہیں اور کہاں کہاں جاتی ہیں؟ کون سی بکتی ہیں اور کون سی نہیں بکتیں؟ چنانچہ جب میرے پاس کچھ پیسے اکٹھے ہوئے تو میں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ’خالد ندیم پبلی کیشنز‘ کے نام سے ایک ادارہ بنا کر کتابیں چھاپنا شروع کردیں۔

سب سے پہلے ہم لاہور آئے اور ایک خاتون ناول نگار سے اس کا ناول لے گئے۔ وہ ہم نے چھاپا، خوش قسمتی سے وہ ناول نہ صرف اچھا چھپا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک بھی گیا پھر ایک اور خاتون ناول نگار حمیدہ جبیں کے ناول چھاپے، ان کا بھی اچھا رسپانس ملا پھر رضیہ بٹ سے ملاقات ہوگئی، ان کے ناول بھی چھاپے، احمد فراز سے ملاقات ہوئی تو ان کی کتابیں چھاپنا شروع کردیں۔ مصطفی زیدی کے بھائی ہمارے محکمے میں تھے انہوں نے کہا بھیا کی کتابیں چھاپیں، ہم نے مصطفیٰ زیدی کو چھاپنا شروع کر دیا۔ ہم نے کالج روڈ پر دفتر بھی بنا لیا تھا۔ 1975 تک ہم 1000 سے زائد ٹائٹل چھاپ چکے تھے۔

پھر میرا تبادلہ لاہور ہوگیا جہاں میں نے ’خالد ندیم پبلی کیشنز‘ کو منقطع کرکے ماورا کے نام سے نیا ادارہ بنالیا۔ جہاں میں نے محسن نقوی کو چھاپا، امجد اسلام امجد کی پہلی کتاب شائع کی۔ فرحت عباس شاہ کو متعارف کرایا پھر منیر نیازی مظفروارثی، قتیل شفائی کے مکمل سیٹ شائع کیے، اب تک ماورا 1000 سے زائد ٹائٹل شائع کرچکا ہے۔

’ماورا‘ بہت خوبصورت نام ہے، یہ کس نے تجویز کیا تھا؟

نام میں نے خود تجویز کیا اور رکھا تھا، میں سرکاری دورے پر ملتان گیا ہوا تھا تو وہاں میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا اس کا نام ’ماورا‘ تھا۔ مجھے نام بہت اچھا لگا چونکہ میں راشد کو بھی پڑھتا تھا۔ اس کی پہلی کتاب کا نام بھی یہی تھا۔ میں نے ہوٹل والوں سے پوچھا کہ انہوں نے یہ نام کیسے رکھا تو انہوں نے بتایا یہاں سے ایک روزنامہ نکلتا ہے امروز، اس کے ایڈیٹر مسعود اشعر نے یہ نام رکھا تھا۔ یوں لاہور واپس آتے ہی میں نے ’خالد اکیڈمی‘ کا نام بدل کر ’ماورا‘ رکھ لیا۔

’خالد ندیم پبلی کیشنز‘ کا ذکر ہوا تھا یہ ’خالد اکیڈمی‘ کہاں سے آ گئی؟

بتانا بھول گیا تھا کہ جب راولپنڈی سے لاہور منتقل ہوا تو میں نے خالد ندیم پبلی کیشنز کی جگہ خالد اکیڈمی نام رکھ لیا جبکہ میرے دوست نے ندیم پبلی کیشنز کے نام سے کام جاری رکھا۔ خالد اکیڈمی میں چونکہ میرا نام استعمال ہوتا تھا اور یہ مجھے ’تعلی‘ لگتا تھا میں اسے بدلنا چاہتا تھا لیکن جب ’ماورا‘ کا نام سنا تو میں نے خالد اکیڈمی کا نام بدل دیا۔

بہت سے شعرا نے ’تعلی‘ سے کام لیا، اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

عاجزی ہونی چاہیے، شاعری میں ’تعلی‘ نہیں ہونی چاہیے اور بہتر بھی یہی ہے کہ یہ بات دوسرے لوگ کہیں، میری شاعری میں بھی ’تعلی‘ بالکل نہیں ہے۔

احمد فراز نے ’ماورا‘ کو کیوں چھوڑا، کوئی رائلٹی کا چکر تو نہیں تھا؟

احمد فراز کو 25 برس مسلسل چھاپا ہے، جب تک ان کی کتابیں چھپتی رہیں، دوستی اور تعلقات بھی رہے اور ویسے بھی شاعر اور پبلشر کا تعلق بہت دیر چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں کوئی دوسرا پبلشر مل گیا اور وہ رہتے بھی اسلام آباد میں تھے اس لیے انہیں وہاں آسانی تھی۔ ’ماورا‘ نے جب تک انہیں چھاپا دلچسپی اور لگن سے چھاپا۔ ہم نے اسلم کمال سے ان کے ٹائٹل ری ڈیزائن کروائے تھے۔ فراز کے ساتھ اچھا وقت گزرا ہے۔

شاعری، پبلشنگ اور بیورو کریسی: کون سا شعبہ بذات خود پسند ہے؟

اکثر لوگ تو ایسے سوالات کے جواب میں کہتے ہیں میرا پہلا پیار شاعری ہے لیکن میرے دوست بھی یہ بات کرتے ہیں اور میں خود بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے زیادہ فوقیت پبلشنگ کو دی۔ نوکری تو کسی شمار میں ہی نہیں آتی۔ وہ ایک ڈیوٹی تھی جو ہم نے خوش اسلوبی سے ادا کی اور وہاں سے نکل آئے۔ باقی رہ گئی شاعری اور پبلشنگ آپ میری ان سے محبت کا اندازا اس بات سے لگا لیں میری پہلی کتاب ’نارسائی‘ 1978 میں تیار تھی حالانکہ اس کا کاغذ بھی خرید لیا گیا تھا حتیٰ کہ اس کی کاپیاں بھی جڑی پڑی تھیں، اسے میں نے 12 برس کے بعد 1990 میں چھاپا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی کتاب آ جاتی تھی تو میں اسے پسِ پشت ڈال دیتا کہ محسن کی کتاب آ گئی اسے چھاپ دوں، کبھی امجد کی کتاب آ گئی وہ چھاپ دی۔

آپ مشاعروں میں بہت کم نظر آتے ہیں؟

میرے ایک طرح سے 2 دور ہیں، ایک 1976 تک کا جب میں راولپنڈی میں تھا، کوئی مشاعرہ ایسا نہیں تھا جس میں نہ ہوتا ہوں۔ ٹی وی پر میں خود بیٹھ کر لسٹیں بنایا کرتا تھا کہ کن کن شعرا کو بلانا ہے اور لسٹ میں سب سے پہلے درمیان میں اپنا نام لکھ کر دوسرے شعرا کے نام لکھتا تھا کہ اوپر ان کو بلانا ہے اور نیچے ان شعرا کو۔

جنگ اخبار میں کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا جب میری تصویر اور غزل نہ چھپتی ہو۔ اس کے بعد لاہور کا دور شروع ہوتا ہے۔ یہاں میں بہت کم مشاعروں میں جاتا ہوں، اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ میں کسی ادبی دھڑے کے ساتھ شامل نہیں ہوں۔ اگر شامل ہوتا تو میں مشاعروں اور ٹی وی پر بھی جلوہ افروز ہوتا۔ راولپنڈی کی حد تک تو میں مشاعروں اور ٹی وی پروگراموں میں رہا لیکن لاہور میں مشاعروں کی لسٹ ہی گروپنگ کی بنیاد پر بنتی ہے۔ اب آج کل لوگ بلاتے ہیں، بطور سینئر شاعر میں کبھی کبھار چلا بھی جاتا ہوں لیکن مفصلات وغیرہ میں جانے سے معذرت کرلیتا ہوں۔

ادبی دھڑے بازی نے مشاعرہ کو بے جان کردیا ہے، اسے دوبارہ زندہ کیے جانے کی ضرورت ہے؟

بالکل اسے دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، اس سے لکھنے والوں کو تحریک ملتی ہے، شعر کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ہوتا یہ ہے شاعر ہر مشاعرے میں اپنی ایک ہی گھسی پٹی نظم یا غزل سنا رہا ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ سامعین کو زبانی یاد بھی ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسے شاعر اپنی ہٹ چیز سے آگے نکلتے ہی نہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ شرط لگا دی جائے کہ مشاعرے میں صرف تازہ تخلیق ہی پیش کی جا سکے گی۔

’طرحی مشاعرے‘ بھی ہونے چاہئیں اور یہ رجحان بھی ختم ہونا چاہیے کہ صرف اپنے گروپ کے بندے کو داد دی جائے گی، اگر کوئی شاعر گروپ کا نہیں پھر چاہے وہ بہترین چیز بھی سنا دے، اس کا مذاق اڑایا جائے۔ اسی وجہ سے بہت سے اچھے شعرا جو حساس ہوتے ہیں، ایسے مشاعروں میں نہیں آنا چاہتے۔

شاعری کے لیے کوئی حادثہ ہونا ضروری ہے، مثلاً محبت میں ناکامی یا پھر کوئی اور ذہنی صدمہ وغیرہ؟

میں نے فرسٹ ایئر میں شاعری شروع کی اس عمر میں تو ایسا کوئی حادثہ بھی نہیں ہوا تھا نہ وہم و گمان میں تھا۔ جہاں تک حادثات اور سانحات کا تعلق ہے وہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور لازمی نہیں کہ سانحہ آپ پر ہی گزرا ہو۔ دل پر اثر انداز ہونے والے سانحات سے شاعری میں بہتری تو آسکتی ہے لیکن یہ شرط نہیں کہ چوٹ کھائے بغیر بندہ شاعر ہی نہیں ہوسکتا۔

وہ کون بچھڑ گیا تھا کہ سارا شہر ہی ویران ہو گیا؟

اس شعر پر شرطیں لگتی ہیں کہ یہ شعر ہے کس کا؟ شاعروں اور ادیبوں کو تو معلوم ہے لیکن جو عام قاری ہیں وہ کہتے ہیں کہ شعر ناصر کاظمی کا ہے، کوئی کہتا ہے یہ شعر فراز کا ہے حتیٰ کہ بعض قاری اسے پروین شاکر سے بھی موسوم کرتے ہیں بہرحال آخر کار جاننے والوں سے انہیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شعر کس کا ہے؟ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو نام ’دائرہ نور‘ میں آ چکے ہیں لوگوں کے ذہنوں میں وہی نام آتے ہیں۔

دوسری بات اس شعر کا پس منظر ہے اور وہ یہ کہ اس شعر کے پیچھے کوئی خاتون تو ہرگز نہیں ہیں۔ یہ شعر میرے ایک دوست کی وفات پر ہوا تھا۔ وہ راولپنڈی میں مقیم تھے ان کا نام انور مغل تھا، ان کے ساتھ میرا بہت وقت گزرتا تھا۔ نوجوانی کی دوستی آپ دیکھ لیں ہر کام، ہر شے میں اکٹھے رہنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، حتیٰ کہ شرارتیں بھی اکٹھی کرنا۔

انور مغل ایک دن راولپنڈی سے روانہ ہوئے۔ان کی کار کا دینہ کے قریب ایکسیڈنٹ ہوگیا، وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس کے بعد پانچ، 6 مہینے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کریں، کہاں جائیں، کس سے ملیں؟ میں گھر میں ہی بیٹھا رہتا تھا اس دور میں بہت سی چیزیں لکھی گئیں اور مجھے اندازا نہیں تھا کہ اس میں یہ بھی لکھی گئی اور اس کا بعد میں اتنا اثر ہوگا۔

غزل کہی اور دوستوں کو سنا دی، بات ختم ہوگئی، سب سے پہلے یہ غزل 1974 میں شمع دہلی میں چھپی تھی۔ ان دنوں میرا دوسرا شعر زیادہ مشہور تھا:
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
تو پھرے قریہ بہ قریہ کو بہ کو میرے لیے

1974 میں شعر کہا 1990 میں پہلی کتاب چھپی پھر یہ ہٹ کیسے ہوا؟

ضیاء الحق مرحوم کے جنازے میں کسی نے اس شعر کو بینر پر لکھوا دیا۔ جنازے کے ساتھ ساتھ بینر بھی چلتا رہا، اظہر لودھی کمنٹری کر رہے تھے، یہ شعر بار بار کیمرے میں فوکس ہوتا رہا۔ یہاں سے لوگوں نے اس شعر کو اُچک لیا۔ ڈائریوں میں لکھا پھر یہ شعر کتبوں پر آ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کا خاص کرم ہے ورنہ جتنا میں شاعری میں غیر سنجیدہ تھا تو شاید کبھی ایسا نہ ہوسکتا کہ میرا کوئی شعر ہٹ ہوتا۔

صبا اکبر آبادی نے کہا تھا ’اگر ایک مصرعہ بھی قبولیت عام حاصل کرلے تو ساری عمر کی محنت اکارت نہیں گئی‘۔ اب مجھے کچھ شرم آتی ہے کہ ایسے Justify کرنے کے لیے شاعری کرنی چاہیے۔ آج کل جو اشعار زیادہ مشہور ہیں وہ یہ ہیں کہ:

عشق کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
ہر کوئی رو کے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں

محسن نقوی سے آپ کے خاص مراسم تھے، ان کی شخصیت اور دوستی کے بارے میں بتائیں؟

محسن نقوی سے میری ملاقات 1973 میں مری میں ہوئی۔ وہاں آل پاکستان مشاعرے میں انہوں نے میری غزل سنی تو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھالیا، وہیں سے دوستی کا آغاز ہوا۔ خط و کتابت ہو گئی۔ 1976 میں جب لاہور آیا تو وہ پہلے سے ہی یہاں موجود تھے۔

ان کی کتاب ’بند قبا‘ شائع ہو کر ختم ہوچکی تھی، کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ ان دنوں ان کی ایک کتاب کا مسودہ تیار تھا، میں نے کہا محسن بھائی اپنی کتاب مجھے دیں۔ انہوں نے ’برگ صحرا‘ کا مسودہ مجھے دیا، وہ ہم نے چھاپا۔ اس کتاب کو ایوارڈ ملا اور اس کتاب کو پبلشنگ ایوارڈ بھی ملا۔ پھر وقفے وقفے سے ہم ان کی کتابیں لاتے چلے گئے، ہماری دوستی بھائی چارے میں بدل گئی۔

یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی ۔ ۔ ۔ ۔ اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی (محسن نقوی)

محسن جتنے بڑے شاعر تھے اس سے بہت بڑے شخص تھے، نہ ان میں پیسے کا لالچ تھا، نہ وہ حسد کرتے تھے اور نہ ہی ان کے ذہن میں تعصب تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے جانے سے مجھے ذاتی نقصان ہوا۔ میں بالکل آدھا ہوکر رہ گیا کیونکہ ان کے ساتھ ہی ہماری محفل ہوا کرتی تھی۔

آپ نے محسن نقوی کی کتابیں جس محبت سے شائع کیں، اتنی توجہ دیگر شعرا کو نہیں دی، اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟

محبت دو طرفہ ہوتی ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ محسن بھائی مسودہ دینے سے کتاب کے آنے تک رابطہ رکھتے تھے۔ وہ ہر نئی کتاب پر کہتے تھے ’خالد یہ تمہیں چیلنج ہے کہ اب پہلے سے بہتری آنی چاہیے‘ انہیں رائلٹی سے غرض نہیں ہوتی تھی وہ کہتے تھے کہ بس کتاب بہتر آنی چاہیے۔ پھر ہم بھی اپنی ساری صلاحیتیں استعمال کرتے تھے اور اس کے عوض مجھے محسن سے جو محبت ملتی تھی اس کا کوئی مول نہیں۔

جہاں تک دوسرے شعرا کا تعلق ہے ان کی کتابیں بھی میں نے محنت کرکے چھاپی ہیں لیکن ان سے مجھے وہ صلہ نہیں ملا۔ محسن کی کتابوں سے زیادہ برکت ہوئی، شاید یہ وجہ بھی ہو کہ اس میں محبت کا جذبہ بھی شامل ہوگیا تھا۔

اب ان کے جانے کے بعد میرا یہ فریضہ ہے کہ میں اس نام کو مرنے نہ دوں۔ آپ دیکھ لیں مصطفیٰ زیدی بہترین شاعر ہیں لیکن اچھے طریقے سے پبلش نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوگئے۔ اس وقت ان کی کتابیں کہیں نہیں ملتیں۔ اگر ان کی کتابیں بھی اسی طرح تواتر سے چھپتی رہتیں تو وہ بھی زندہ رہتے، اس طرح اگر ہم محسن کی کتابیں آؤٹ آف مارکیٹ کر دیتے تو لوگ ان کا نام بھی بھول جاتے۔ محسن کے بچے میرے بچے ہیں، ان کا خاندان میرا خاندان ہے۔

محسن نقوی ذاکر بھی تھے دوست احباب میں مذہبی بحث بھی چھیڑ لیا کرتے تھے؟

میں راسخ العقیدہ سنی ہوں۔ میں جب بھی ان کے گھر گیا اور وہاں جتنے افراد بھی بیٹھے ہوتے تھے محسن ان کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے تھے ’خالد میرا بھائی ہے‘۔ محسن نقوی میں تعصب نام کو بھی نہ تھا، وہ واحد ذاکر تھے جنہوں نے یہ طرز شروع کی تھی کہ وہ پوری کی پوری مجلس شاعری میں پڑھتے تھے۔ دوست احباب میں کبھی مذہبی گفتگو نہیں کیا کرتے تھے۔

محسن کے انتقال کی اطلاع آپ کو کس نے دی؟

میری بیگم اس روز مون مارکیٹ گئی ہوئی تھیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں وہاں بچوں کی کٹنگ کروا رہی تھی کہ باربر نے کہا کہ پیسے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کیسے؟ باربر بولا محسن بھائی اشارہ کر گئے ہیں۔ اسی شام مجھے حسن رضوی مرحوم کا فون آیا کہ محسن کو گولی لگ گئی ہے، ہم بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے، لیکن اس وقت تک وہ ختم ہوچکے تھے، اتنا قیمتی شخص ہم سے بچھڑ گیا تھا۔

ادبی ادارے کیا کر رہے ہیں؟

ابھی تک تو ادبی اداروں نے ایسا کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا حالانکہ بڑے ادارے، بڑے فنڈز، بڑی تنخواہیں اور مراعات ہیں۔ سننے میں آتا ہے کہ کروڑوں کے فنڈز ملے ہیں۔ ان سے مستحق ادیبوں کی کتابیں شائع کی جائیں گی لیکن نہیں کی گئیں۔ میرے خیال میں ادبی اداروں میں محض سیاسی کھیل ہی چل رہا ہے۔ ادیبوں کے لیے یہ ادارے کچھ نہیں کر رہے۔

ادبی ادارے پی ٹی وی کی طرح کام کر رہے ہیں۔ یہ بھی وہی 4 نام بلا لیتے ہیں۔ چاہے باہر ادیبوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ کبھی چائنا، کبھی روس بس نام وہی 4۔کبھی نئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اکادمی ادبیات پاکستان جیسے بڑے ادارے کے ذمے ہونا چاہیے کہ وہ ہر برس دس، 12 نئے شعرا کو متعارف کروائے۔

اتنے زیادہ فنڈز ہونے کے باوجود انہیں کیا مسئلہ ہے کہ وہ چھان پھٹک کر نئے نئے شعرا کو آگے نہیں لاتے۔ یہ ان کے ایجنڈے میں شامل بھی رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس دو اڑھائی کروڑ روپے بھی تھے۔ پتا نہیں ان کا کیا ہوا؟

نیشنل بک کونسل آف پاکستان نے ادب کی ترقی کے لیے بے حد کام کیا۔ وہ واحد ادارہ تھا کہ جب کوئی ادبی کتاب شائع ہوتی وہ دو اڑھائی سو کتابیں خرید لیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پبلشر کو حوصلہ ہوتا تھا کہ اگر میں 500 کتابیں چھاپوں گا تو 250 نیشنل بک کونسل لے لے گی اور میرے اخراجات اس میں کور ہو جائیں گے۔ ہمارے کچھ کرم فرماؤں نے اس ادارے کو ختم کرکے نیشنل بک فاؤنڈیشن میں ضم کردیا۔

نہ اس نے کچھ کیا اور نہ نیشنل بک کونسل کو کچھ کرنے کے قابل چھوڑا۔ اس ادارے کی آخری سربراہ فہمیدہ ریاض تھیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے آج تک کتاب کی ترویج کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اکادمی آف لیٹرز جیسے اداروں کو ہر ادبی کتاب کی دو، اڑھائی سو کاپیاں خرید لینی چاہئیں تاکہ شاعر کا خرچ پورا ہو جائے۔ ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ ادبی اداروں کے سربراہوں کا زیادہ وقت اپنی نوکری بچانے کی دوڑ دھوپ میں ضائع ہوجاتا ہے۔ اس لیے کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔

قاری کا کتاب کے ساتھ کتنا تعلق باقی رہ گیا ہے؟

بہت کم، کیونکہ آبادی میں اضافے کے تناسب سے تو یہ شرح نہایت پریشان کن ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جتنی آبادی بڑھی ہے اسی حساب سے کتابیں بھی بڑھتیں، مثال کے طور پر ہم نے 1970 میں ایک کتاب 1000 کی تعداد میں شائع کی اب 2007 میں بھی اچھی سے اچھی کتاب 1000 ہی چھپتی ہے حالانکہ آبادی میں قریباً 10 فیصد اضافہ ہوا مگر کتاب جوں کی توں کھڑی ہے بلکہ اس شرح سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اچھی کتابیں بھی اب 500 سے زائد نہیں چھپتیں۔

دوسری طرف لوگوں میں مطالعہ کا شوق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کتاب کی قیمت بڑھنا بھی اس کی ایک وجہ ہے کہ آپ دیکھیں کاغذ اور سیاہی کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے۔

پاکستان کے بیسٹ سیلر مصنفین کون کون سے ہیں؟

صفِ اول کے بیسٹ سیلرز میں پروین شاکر، محسن نقوی، احمد فراز، امجد اسلام امجد جبکہ نثر میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، مستنصر حسین تارڑ اور مشتاق احمد یوسفی سرفہرست ہیں۔

تازہ کلام میں سے کچھ سنائیں؟

لہو کا رنگ بھرنا رہ گیا ہے
اسے تصویر کرنا رہ گیا ہے
مکمل ہوگئے سارے مراحل
محبت سے مکرنا رہ گیا ہے
میں ویسے تو کبھی کا مر چکا ہوں
سپرد خاک کرنا رہ گیا ہے
ہماری داستاں لکھی گئی ہے
بس اس کا ذکر کرنا رہ گیا ہے
یہ گلاب بیج بن کر پک چکا ہے
فضاؤں میں بکھرنا رہ گیا ہے
نہ وہ منظر نہ پس منظر ہے خالد
بس اک خاموش جھرنا رہ گیا ہے

’رت ہی بدل گئی‘ کی تقریب رونمائی کی صدارت قراۃ العین حیدر نے کی تھی؟

وہ تقریب لندن میں انجمن ترقی پسند منصفین کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی، اس کے محرک مرحوم بخش لائلپوری تھے۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس تقریب کی صدارت قراۃ العین حیدر نے کی تھی جنہیں پڑھ کر ہم نے لکھنا سیکھا۔ ان سے بڑی زندہ شخصیت اس وقت اردو ادب میں موجود نہیں ہے۔

(یہ انٹرویو 21 جنوری 2007 کو کیا گیا تھا)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp