اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقدہ اجلاس میں شرکت کے لیے ناقابل قبول شرائط رکھی ہیں۔
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ انہیں طالبان کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں اس میٹنگ میں شرکت کے لیے کچھ شرائط بیان کی گئی تھیں جو قابل قبول نہیں تھیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق ان شرائط نے افغان معاشرے کے دیگر نمائندوں سے بات کرنے کے حق سے انکار سمیت ہم سے ایسے سلوک کا مطالبہ کیا جو بڑی حد تک طالبان کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو۔
مزید پڑھیں
گزشتہ روز دوحہ میں ختم ہونیوالے اس 2 روزہ اجلاس میں افغانستان میں رکن ممالک اور بین الاقوامی سفارتکاروں نے ملک کو درپیش مسائل پر بات چیت کے لیے شرکت کی، لیکن اس اجلاس میں طالبان نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کے باعث شرکت نہیں کی۔
دو روزہ اجلاس جو پیر کو دوحہ میں ختم ہوا، افغانستان میں رکن ممالک اور بین الاقوامی سفیروں نے ملک کو درپیش مسائل پر بات چیت کے لیے اکٹھا کیا۔ لیکن طالبان نے شرکت نہیں کی کیونکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔
دو دہائیوں کی جنگ کے پس منظر میں امریکا اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کرلیا تھا، تاہم، کسی ملک نے بھی اسے افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا، جبکہ اقوام متحدہ کا موقف ہے کہ جب تک خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں برقرار ہیں طالبان کی حکومت تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد، طالبان نے خواتین کو گھر سے نکلتے وقت پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکول اور یونیورسٹی جانے سے روکتے ہوئے ان کے پارک، جم اور عوامی حمام پر داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔
تنقید کو بیرونی مداخلت کے طور پر مسترد کرتے ہوئے، طالبان کا اصرار ہے کہ مذکورہ پابندیاں افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے، تاہم اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گتریس کا کہنا ہے کہ پابندیوں کو منسوخ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
گزشتہ ماہ طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کے خدشات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھاکہ افغان خواتین کے ساتھ اقوام متحدہ کی نام نہاد ہمدردی بے جا اور غیر ضروری ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ذبیح اللہ مجاہد نے لکھا تھا کہ افغان خواتین اپنی مرضی سے حجاب پہنتی ہیں، انہیں زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تنازعہ کا ایک اور نکتہ ملک میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری ہے جس کی طالبان مخالفت کرتے ہیں۔
انتونیو گتریس نے کہا کہ طالبان کے ساتھ واضح مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ ایلچی کے کردار کی وضاحت ہو سکے اور طالبان کے نقطہ نظر سے اسے پرکشش بنانے کے لیے اس کردار کے لیے کس کا انتخاب کیا جائے، انہوں نے واضح کیا کہ مشاورت کا حصہ بننا طالبان کے مفاد میں ہے۔
بہت سی حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں نے طالبان کی پالیسیوں کے جواب میں افغانستان کے لیے اپنی مالی امداد روک دی ہے یا اس میں کمی کر دی ہے، جس سے مشکلات سے دوچار افغان معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔
انتونیو گتریس کے مطابق اقوام متحدہ کا ایک بنیادی مقصد اس تعطل پر قابو پانا ہے، ایک روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے جس میں عالمی برادری کے خدشات اور افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام کے خدشات کو مدنظر رکھا جائے۔ .
الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے آمو ٹی وی کے سی ای او لطف اللہ نجفی زادہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے مذاکرات میں شرکت نہ کرکے ایک تذویراتی غلطی کی۔’میرے خیال میں طالبان کے لیے یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ دنیا کہاں کھڑی ہے، اس وقت دنیا نے طالبان کے بغیر آگے بڑھنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔‘
’میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی برادری کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا اور طالبان کے ساتھ یک آواز ہو کر نمٹنا بہت ضروری ہے۔‘
دوحہ میں منعقدہ اجلاس کا مقصد افغانستان میں مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید مربوط جواب دینا تھا۔
انتونیو گتیرس کے مطابق چند رکن ممالک پر مشتمل ’رابطہ گروپ‘ کی تشکیل پر بھی بات چیت ہوئی ہے، جو افغان ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ زیادہ مربوط انداز میں اشتراک عمل تلاش کرسکیں، انہوں نے کہا کہ اس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان، پڑوسی ممالک اور متعلقہ عطیہ دہندگان شامل ہو سکتے ہیں، تاہم یہ رکن ممالک پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے تشکیل دیتے ہیں۔